Saturday, July 28, 2012

قبرستانوں پر ناجائز قبضے‎


فردوس خان 
لوگوں نے اپنی زمین جائداد وقف کرتے وقت یہی تصور کیا ہوگا کہ آنے والی نسلوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ بے گھروں کو گھر ملے گا اور ضرورتمندوں کو مدد ملے گی۔ لیکن ان کی روحوں کو یہ دیکھ کر کتنی تکلیف پہنچتی ہوگی کہ ان کی وقف کی گئی زمین جائداد چند سکوں کے عوض ضرورتمندوں اور حقداروں سے چھین کر دولت مندوں کو فروخت کی جارہی ہے۔مسجدوں ، مزاروں اور وقف کی دیگر جائداد پر قبضے کر لئے گئے ہیں یا کرادیے گئے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ قبرستان تک کو بھی نہیں بخشا گیا۔قبرستان کی قبریں کھود کر مردوں کی ہڈیاں ضائع کی جارہی ہیں تاکہ قبرستان کا نام و نشان ہی باقی نہ رہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو مرنے کے بعد دو گز زمین بھی میسر نہیں ہوپارہی ہے۔ مُردوں کو دفنانے کے لئے لوگوں کو انتظامیہ اور پولیس کی مدد لینا پڑ رہی ہے ہریانہ سمیت کم و بیش پورے ملک کی صورت حال یہی ہے۔

گزشتہ 19 جون کو ہریانہ کے جھجر ضلع میں واقع پرنا لا گائوں میں مسلم فرقے کے ساٹھ سالہ منوہر کا انتقال ہوگیا۔ لیکن گائوں والوں نے انہیں قبرستان میں دفنانے نہیں دیا کیونکہ اس قبرستان پر گائوں والوں کا قبضہ ہے۔ گائوں میں 6 کنال 18 مرلے کا قبرستان ہے لیکن اس پر گائوں کے ہی بھگوانا ، اودے، نتھوا اور پھول سنگھ ملّے کا قبضہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ نے انہیں یہ جگہ لیز پر دی ہے ۔ ہریانہ’ مسلم خدمت سبھا ‘کے جھجر ضلع کے کنوینر جیون ملک کا کہنا ہے کہ جب اس سلسلے میں وقف بورڈ کے جھجر آفس میں مامور اسٹیٹ آفیسر رفاقت اللہ سے شکایت کی گئی تو انہوں نے انتہائی بد اخلاقی کے ساتھ کہا کہ میں نے تمہارے جنازے کو دفنانے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے۔ مایوس ہوکر لوگوں نے ضلع انتظامیہ سے فریاد کی جس کے نتیجے میں میت دفنائی جاسکی۔ تقریبا ً آٹھ سال پہلے منوہر کی بیوی رضیہ کے انتقال پر بھی کنبے کے لوگوں کو اسی طرح کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ایک طرف تو گھر میں میت رکھی تھی۔ لوگ زارو قطار رو رہے تھے جبکہ دوسری طرف قبرستان پر قابض لوگ میت کو دفنانے سے روک رہے تھے۔ عجیب پریشانی کا عالم تھا۔ بہر حال پولیس ، انتظامیہ کے تعاون سے مرنے والے کو دو گز زمین نصیب ہوسکی۔

قابل غور ہے کہ مذہبی مقامات کے تحفظ اور نگرانی کے لئے آزادی کے بعد مرکزی حکومت نے 1954 میں وقف قانون بنایا،جس میں 1995 میں کچھ بنیادی ترامیم کی گئیں۔اس قانون کی دفعہ13(1) کے تحت پنجاب، ہریانہ ، ہماچل پردیش اور مرکز کے زیر انتظام چنڈی گڑھ میں آنے والے مذہبی مقامات کے تحفظ کے لئے مرکزی حکومت کی نگرانی میں پنجاب وقف بورڈ تشکیل پایا۔ اس کے بعد 29 جولائی 2003 کو مرکزی نوٹیفکیشن کے تحت اسے توڑ دیا گیا اور پھر یکم اگست 2003 کو ہریانہ وقف بورڈ وجود میں آیا مگر اس وقف بورڈ کو جس مقصد کے تحت بنایا گیا تھا ،یہ اس سے بھٹک گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی جائدادیں ختم کرکے فروخت کی جانے لگیں ۔ وقف بورڈ کے افسران نے اپنے مفاد کے لئے وقف کی املاک کو پٹـے کی آڑ میں بیچنا شروع کردیا۔ قبرستان کو ختم کرکے کالونیاں اور دکانیں بنائی جانے لگیں۔ حکومت ہند کے ذریعے جاری نوٹیفکیشن میں ہریانہ وقف بورڈ کے پاس 20908 ایکڑ زمین سمیت 12494 املاک ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری پہلے پنجاب وقف بورڈ کے پاس تھی،اور اب ہریانہ وقف بورڈ کے پاس ہے۔ ویسے تو پنجاب وقف بورڈ کی مدت کار میں بھی متعلقہ افسروں اور ملازمین نے وقف کی املاک کو خورد برد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن بچی کھچی کسر ہریانہ وقف بورڈ کے اہلکاروں نے پوری کردی۔ افسران نے زمین مافیا سے مل کر وقف املاک کو فروخت کرنا شروع کردیا۔ گزشتہ دنوں کرنال کے قبرستان کو فروخت کرنے کا معاملہ سامنے آیا ۔ ہریانہ وقف بورڈ کے کرنال میں واقع دفتر میں مقرر اسٹیٹ آفیسر محمد یعقوب سراولی اور بورڈ کے انبالہ میں واقع صدر دفتر میں تعینات لیز اینڈ ایکویزیشن اور ایڈمنسٹریٹیو آفیسر امتیاز خضر اور چیف ایڈمنسٹریٹیو آفیسر ڈاکٹر پرویز احمد نے شہر کے جنڈ لاگیٹ کے باہر واقع چاند سرائے کے نام سے مشہور 21 بیگہ قبرستان کا پٹا لینڈ مافیا کو دے دیا۔ خسرہ نمبر 4489 میں 21 بیگہ قبرستان کی زمین اربن اسٹیٹ کے رہنے والے اشوک کمار اور سیکٹر چار کے رہنے والے سنیل کمار نے وقف بورڈ سے کاشت کے لئے لی تھی لیکن انہوں نے اس پر کالونی کے لئے پلاٹ کاٹ دیے۔ انہوں نے قبرستان پر قبضہ کرتے ہوئے جے سی بی مشین سے یہاں کی قبروں کو ختم کرکے کالونی بنانے کے لئے سڑک بنانی شروع کردی۔ اس پر مقامی مسلمانوں نے مخالفت کی اور انتظامیہ سے اس کی شکایت کی۔ انتظامیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے کام رکوا دیا۔ لیکن وقف بورڈ کے افسران اپنے کئے پر شرمندہ ہونے کے بجائے مقامی مسلمانوں کو گمراہ کرکے اپنے ناپاک منصوبے کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ قبرستان میں دفنائے گئے عبد الغفور کے بیٹے بیر الدین کا کہنا ہے کہ وقف کے افسران قبضہ کرنے والوں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے رات میں قبرستان میں دیوار تک بنا ڈالی ۔ اس قبرستان پر تقریباً 17 لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں کرنال کے ضلع نائب کمشنر سے شکایت کی جس میں انہوں نے قبرستان پر قابض اشوک کمار، سنیل کمار اور جگتار سنگھ کے علاوہ وقف کے افسران کو بھی ملزم بنایا۔ ان میں وقف بورڈ کے صدر دفتر انبالہ کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسر اور اسٹیٹ انچارج اینڈ لیز ایکویزیشن امتیاز خضر اور کرنال میں تعینات اسٹیٹ آفیسر محمد یعقوب سراولی شامل ہیں۔ غور طلب ہے کہ پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے 19 ستمبر 2008 کو قبرستان کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔عدالت نے کہا تھا کہ قبرستان کو الاٹ کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ ہائی کورٹ کے احکام کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ قبروں کو کھودنا اور کسی مذہبی مقام کو نقصان پہنچانا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم تنظیموں نے جب اقلیتی کمیشن میں شکایت کی اور ہر طرف سے وقف پر دبائو بڑھنے لگا تو اس پٹے کو رد کردیا گیا لیکن اب پھر سے لینڈ مافیا نے اس قبرستان پر قبضہ کرلیا ہے۔ گھروندہ قصبے کے قبرستان خسرہ نمبر 222 رقبہ 10 کنال پر بھی ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح جھجر ضلع کے بہادر گڑھ قصبے میں وقف بورڈ کی 52 بیگہ اور تین بیگہ کی دو املاک پر بھی کالونیاں بسا دی گئی ہیں۔ سونی پت کے گائوں شیر شاہ کے قبرستان کی 10 بیگہ زمین بھی ہتھیا کر مکان بنالئے گئے۔ کرنال ضلع کے تراوڑی قصبے میں ایک ایکڑ کا قبرستان ہے لیکن اس کا استعمال رہائش کے لئے ہورہا ہے۔ تراوڑی صنعتی علاقہ ہے۔ یہاں کارخانوں میں کام کرنے والے لوگوں نے قبرستان پر قبضہ کرکے اپنی بستی بسا لی ہے مگر وقف کے عہدیدار اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ ہریانہ کے دیگر علاقوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ زمین خواہ قبرستان کی ہو، مسجد کی ہو یا کسی مزار کی، وقف بورڈ کی لاپرواہی سے کروڑوں کی املاک پر ناجائز قبضے ہورہے ہیں۔ ایسے معاملے بھی سامنے آئے ہیں جب لوگوں نے وقف بورڈ سے پٹہ پر زمین لیکر اسے موٹی رقم میں بیچ دیا ہے۔ کرنال ضلع کے اندری قصبے کے قبرستان کو بھی پٹے کے نام پر بیچنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ موصولہ دستاویز اور معلومات کے مطابق اس وقت کے پنجاب وقف بورڈ کے افسران نے اندری کے قبرستان خسرہ نمبر 88، رقبہ 6 کنال 13 مرلے کو سال 1987-88 میں شمس الدین اور مغل الدین ولد محمد صادق، نیازالدین ولد مولا بخش ساکن قصبہ اندری ضلع کرنال کو لیٹر نمبر 24لیزاربن ( ایف نمبر ایچ 5-9)19538/87-88 مؤرخہ 1-04-1988 کے ذریعہ 225 روپے ماہانہ پٹے پر دیا تھا۔ بعد میں شمس الدین کے بیٹے جمیل نے اسی قبرستان کی زمین پر دو دکانوں کی جگہ شانتی دیوی زوجہ چندر لال ساکنہ وارڈ نمبر 1 اندری ضلع کرنال کو 80 ہزار روپے فی دکان کے حساب سے بیچ دی۔ 18 جنوری 2006 کو اس کا اقرار نامہ بھی لکھا گیا، جس میں بیعانہ کے طور پر 40 ہزار روپے نقد دینے اور بقیہ رقم ایک لاکھ 20 ہزار روپے دکانیں بننے کے بعد دینا طے پایا۔ انبالہ جگ دھاری روڈ کے کنارے واقع قبرستان کی قیمتی زمین پر بھی ناجائز قبضہ کرلیا گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ یہاں کے قبرستان سے قبریں ہی غائب کردی گئیں۔ گزشتہ مارچ میں جب قومی اقلیتی کمیشن کے ممبر اور ریٹائرڈ جج ڈاکٹر مہندرسنگھ نے قبرستان کا معائنہ کیا تو انہیں پتہ چلا کہ اس قبرستان میں 1849 میں دفنائے گئے انگریز افسر جے پی کلیگم کی قبر تک غائب ہوچکی ہے۔ مانا جارہا ہے کہ نیم پلیٹ چوری ہونے کی وجہ سے کئی قبروں کی شناخت ختم ہوگئی۔ کافی بڑے اس قبرستان کی زمین پر کئی لینڈ مافیا کی نظر ہے ۔ اس کا کچھ حصہ تو ناجائز قبضے کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ کمیشن کو اس بارے میں کافی شکایتیں مل رہی ہیں۔ اس قبرستان کی زمین پر ڈیڑھ درجن سے زیادہ گھر بنے ہوئے ہیں۔ دھیان رہے کہ انگریز افسر جے پی کلیگم نے گرو گرنتھ صاحب کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔

گزشتہ سات سالوں میں وقف بورڈ کے ریو نیو میں 273 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2004-05 میں وقف کو پانچ کروڑ 23لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی تھی، جو 2011-12 میں بڑھ کر 17 کروڑ 62 لاکھ روپے ہوگئی ہے۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا کی صدارت میں ہوئی کابینہ کی میٹنگ میں ایک قرار دادپاس کرکے کہا گیا تھا کہ ہریانہ میں وقف بورڈ کی ساری املاک کا دوبارہ سروے کرایا جائے گا اور ناجائز قبضوں کو ہٹانے کے لئے وقف بورڈ کے افسران کو مزید اختیارات دیے جائیں گے۔ گزشتہ دنوں ہریانہ سرکار نے اخبار میں اشتہارات دے کر ہریانہ وقف بورڈ کی کارگزاریوں کا پروپیگنڈا بھی کیا تھا جس سے ظاہر ہوتاہے کہ وقف بورڈ کے افسران نے سرکار کو بھی اندھیرے میں ہی رکھا ہے۔ وقف بورڈ کے ایڈمنسٹریٹر نسیم احمد کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے وقف بورڈ کی املاک پر ناجائز قبضہ کیا ہے انہیں پی پی ایکٹ کے تحت خالی کروانے کا معاملہ صدر جمہوریہ کے پاس زیر غور ہے۔ ’ہریانہ مسلم خدمت سبھا ‘کے چیف صوبائی کنوینر محمد رفیق چوہان کا کہنا ہے کہ ہریانہ میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے اور زیادہ تر مسلمان پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ وقف بورڈ کے افسران اسی بات کا فائدہ اٹھا کر وقف کی املاک کو بیچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی، کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی، مسلم ممبران پارلیمنٹ ، ہریانہ کے سبھی ممبران پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو خط لکھ کر قصور وار افسران کو برخاست کرتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرکار کو اس معاملے میںاعلیٰ سطحی جانچ کرانی چاہئے۔انہوں نے لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہریانہ میں وقف املاک کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان کے تحفظ کے لئے آگے آئیں اورقابضین اور لیز کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والے پٹے داروں کے خلاف قانونی کارروائی میں تعاون کریں۔

سرکاری قواعد
حال ہی میں ہریانہ کابینہ نے ملک کے وقف انتظامیہ میں یکسانیت لانے کے لئے ہریانہ وقف قانون 2012 کو منظوری دی ہے۔ کابینہ کی میٹنگ کے بعد وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا نے کہا کہ نئے ضابطوں میں بورڈ کے ممبران کے انتخاب کا طریقہ ، چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی سروس کی اہلیت و شرائط مقرر کی گئی ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی میں وقف املاک کی غیر قانونی طریقے سے وصولی کا عمل ، وقف املاک سے قبضہ ہٹانے کا طریقہ ، وقف فنڈ کا حساب،سرمایہ کاری کی حفاظت کے طور طریقے بنائے گئے۔ وقف قانون 1995 کے تحت پارلیمنٹ کے ذریعے جاری وقف املاک سے متعلق وقف ٹریبونل کی ریت ا ور کارروائی کی سالانہ رپورٹ سرکار کو دینے کا پرویزن کیا گیا ہے۔ ضوابط میں بدعنوان طرز عمل (کرپٹ پریکٹیز) کی جانچ کے لئے پرویزن کئے گئے ہیں،ریپریذنٹیشن آف دی پیوپل ایکٹ 1951 کی دفعہ 123 کے پرویزن ، بد عنوان طرز عمل کی جانچ کے لئے ہریانہ وقف قانون 2012 کے باب 3 میں ضروری تبدیلی سمیت نافذ ہوں گے۔ وقف املاک کی منتقلی کے لئے شرائط اور پابندی لگائی گئی ہیں۔ اب درخواست گزار کو مجوزہ کام کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک حلف نامہ دینا ہوگا کہ یہ وقف کے لئے فائدہ مند ہوگا اور اس کا کیسے استعمال کیا جائے گا۔ اس بابت اعتراضات پانے کے لئے کسی بھی مجوزہ کام کی اطلاع سرکاری گزٹ اور کثیر الاشاعت دو اخباروں میں شائع کی جائے گی۔ اطلاع میں کام کی تفصیل ہوگی اور’ 30 دنوں سے کم نہیں‘ کی منطقی میعاد مقرر ہوگی۔ جس میں اعتراضات یا سجھائو بھیجے جائیں۔ پبلک نیلامی کے ذریعہ غیر منقولہ جائداد کی سیل تب تک نہیں کی جائے گی جب تک کہ نیلامی کی تاریخ سے دو مہینے کے اندر بورڈ کے دو تہائی ممبران کے ذریعے اس کی منظوری نہیں دی جاتی ۔ نئے ضابطوں کے مطابق صوبائی سرکار وقف کے سروے کشمیر کمشنروں کا تقرر کرے گی جو کمشنر کے رینک سے کم عہدے کے نہیں ہوں گے۔ صوبائی سرکار ہر ریونیو ڈسٹرکٹ کے لئے وقف کے علاوہ سروے کمشنر کمشنروں کا بھی تقرر کرے گی جو ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہوں گے۔ صوبائی سرکار ریونیو سب ڈویژن کے لئے وقف معاون سروے کمشنر بھی مقرر کرے گی۔ جو متعلقہ ریونیو سب ڈویژن تحصیل کے ایس ڈی ایم ایگریکٹیو مجسٹریٹ ہوں گے اور وقف بورڈ کے املاک افسرملازمین اور نائب تحصیلدار یا کسی دیگر ریونیو آفیسرز کے ذریعے ان کی مدد کی جائے گی۔ سروے کمشنر صوبائی سرکار کو اپنے تقرر کی تاریخ سے ایک سال کے اندر یا صوبائی سرکار کے ذریعے توسیع کی گئی میعاد کے اندر اپنی رپورٹ فارم 1 جمع کرائیں گے۔ نئے ضوابط کے مطابق سروے کمشنر ، صوبائی سرکار کی پیشگی اجازت سے صوبے میں سروے کرانے کے لئے ریٹائرڈ ریونیو آفیسرملازمین سمیت کسی بھی ایجنسی یا ادارہ یا تنظیم یا پبلک انٹر پرائزز یا کسی شخص کی مدد لے سکیں گے۔ ایسے سروے کے سبھی اخراجات صوبائی سرکار کے ذریعے اٹھائے جائیں گے بشرطیکہ ایسی معاون ایجنسی شخص کے ذریعے دیا گیا کوئی بھی ڈاٹا تبادلہ منظوری سے پہلے سروے کمشنر کے ذریعے ریٹیفکیشن کی جائے گی۔ سروے کمیشن وقت اور مقام مقرر کرنے کے ساتھ آگزیلری پروسیزرکو قاعدہ کے مطابق کریں گے۔ بہر حال سرکار نے اعلامیہ کردیے ہیں لیکن ان پرکتنا عمل ہوگا ،یہ کہنا مشکل ہے۔

Friday, June 15, 2012

خواتین سے جنسی استحصال: جنوبی کوریا سے سبق لیں‎


فردوس خان
ہمارے ملک کے چھوٹے چھوٹے گاؤں سے لے کر شہروں تک جنگل بنتے جا رہے ہیں، جہاں پر خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اخباروں کے صفحات عصمت دری اور اجتماعی عصمت دری کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ اس سے نمٹنے کے لیے حکومت کو جنوبی کوریا کی طرح سخت قدم اٹھانے ہوں گے۔ حال ہی میں خبر آئی ہے کہ جنوبی کوریا میں عصمت دری کرنے والوں کو نامرد بنا دیا جائے گا۔ جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کی آبروریزی کرنے والے افراد کو سزا دینے کے لیے کیمیکل کا استعمال کرے گا۔ سزا دینے کے لیے پہلی بار کیمیکل کا استعمال کیا جائے گا۔ اس کے لیے قصوروار شخص کی منظوری لینا ضروری نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں بنا قانون 2010 میں ہی منظور کر لیا گیا تھا۔ اس کے تحت پہلی سزا 45 سالہ پارک نامی شخص کو دی گئی۔ پارک پر سیریل ریپسٹ ہونے کا الزام ہے۔ وزارتِ قانون کے مطابق، پارک نے 1980 سے لے کر اب تک چار لڑکیوں کی عصمت دری کی ہے۔ وزارت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ جنسی استحصال کے وہ ملزم اس قانون کے دائرے میں آئیں گے، جن کی عمر 19 سال سے زیادہ ہے اور ان پر 16 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی عصمت دری کرنے کا الزام ہے۔ اس قانون کو لے کر جنسی استحصال کے الزام میں قید لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ ایک اہل کار نے بتایا کہ ان لوگوں نے دوبارہ اپنی رہائی کی اپیل کی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی، جو اپنا گناہ دہراتے ہیں۔ پارک کو جولائی میں جیل سے رہا کر دیا جائے گا، لیکن تین سال تک ہر تین ماہ کے وقفہ کے بعد اسے کیمیکل کا انجکشن دیا جائے گا۔ اسے ایک الیکٹرانک ہیلمٹ پہننا ہوگا اور تین سال تک اس پر نگرانی رکھی جائے گی۔ ملک میں بچوں کے جنسی استحصال کے بڑھتے واقعات کی مخالفت میں لوگوں نے مظاہرے کیے تھے، جس کے بعد جنوبی کوریا نے 2010 میں کیمیکل کے استعمال کے ذریعے قصورواروں کو نامرد بنانے کے عمل کو قانونی منظوری دے دی تھی۔ہم غیر ملکی دشمنوں سے لڑنے کے لیے روزانہ نئی میزائلیں تیار کر رہے ہیں، لیکن اپنے ہی گھر میں ماں، بہن اور بیٹیوں کو تحفظ تک مہیا نہیں کرا پا رہے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم، پلان انڈیا کے ایک سروے کے مطابق، شہری علاقوں میں رہنے والی 70 فیصد لڑکیوں کا ماننا ہے کہ شہر ان کے لیے غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سروے دہلی، ممبئی، حیدرآباد، پُنے، کولکاتا، بنگلورو، پٹنہ، وارانسی، بھونیشور اور رانچی کی دس ہزار لڑکیوں سے بات چیت پر مبنی ہے۔ پلان انڈیا کے گورننگ بورڈ کے چیف اور فلم ڈائریکٹر گووند نہلانی اور اداکارہ اور سماجی کارکن شبانہ اعظمی کے ذریعے جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو زیادہ مواقع مہیا کرانے کا دعویٰ کرنے والی شہری اکائیوں میں ہی لڑکیاں سب سے زیادہ جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ 74 فیصد لڑکیوں کو عوامی جگہوں پر سب سے زیادہ ڈر محسوس ہوتا ہے، جب کہ 69 فیصد لڑکیاں شہروں کے ماحول کو بے حد غیر محفوظ مانتی ہیں۔ اسی طرف سیف سٹیز بیس لائن سروے – دہلی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ راجدھانی دہلی میں 66 فیصد خواتین دن میں دو سے پانچ بار جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ حکومت دہلی کی وزارت برائے فروغِ خواتین و اطفال ، غیر سرکاری تنظیم جاگوری، خواتین کے لیے اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ فنڈ اور یو این ہیبٹیٹ کے ذریعے مشترکہ طور پر کرائے گئے اس سروے کے مطابق، 15 سے 19 سال کی طالبات اور غیر منظم اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو برے برتاؤ کا سامنا سب سے زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ نیشنل کرائم رپورٹ بیورو کے مطابق، ہر آٹھ گھنٹے میں ایک عورت یا بچی کا اغوا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر 12 گھنٹے میں ظلم و جبر، 18 گھنٹے میں عصمت دری، 24 گھنٹے میں جنسی استحصال اور ہر 30 گھنٹے میں اس کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ صرف وہ واقعات ہیں، جن کی خبر میڈیا میں آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جو رونما تو ہوتے ہیں، لیکن سامنے نہیں آ پاتے۔ ملک کا کوئی بھی حصہ خواتین پر ظلم کے واقعات سے اچھوتا نہیں ہے۔ اسکول ہو یا کالج، دفتر ہو یا بازار، ہر جگہ آتے جاتے راستے میں لڑکیوں اور عورتوں کو غیر سماجی عناصر کی بیہودہ حرکتوں اور فقروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں ہی نہیں، بلکہ سرکاری محکموں، یہاں تک کہ پولس محکمہ میں بھی خواتین کو مرد ساتھیوں کی زیادتیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔

جنسی زیادتیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ شرم ناک بات یہ ہے کہ بھیڑ میں غیر سماجی عناصر خواتین کی عصمت سے کھیلتے رہتے ہیں اور لوگ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ حیوانیت یہ ہے کہ عصمت دری کرنے والے عورتوں کو ہی نہیں، بلکہ کچھ مہینے کی معصوم بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں اور پھر پکڑے جانے کے خوف سے ان کا قتل کر دیتے ہیں۔ پچھلے ماہ اتر پردیش کے آگرہ ضلع کے گاؤں کک تھلا میں چھ ماہ کی بچی کے ساتھ اسی گاؤں کے ایک شخص نے عصمت دری کی، جس سے اس بچی کی موت ہو گئی۔ عصمت دری کرنے والوں میں غیر ہی نہیں، باپ اور بھائی سے لے کر چچا، ماموں، دادا اور دیگر قریبی رشتہ دار تک شامل ہوتے ہیں۔

عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے معاملے عدالتوں میں نہ پہنچ پانے کی سب سے بڑی وجہ سماجی خوف ہے۔ مردوں کے غلبہ والے سماج نے عورتوں کا ذہنی اور جسمانی استحصال کرنے کے متعدد طریقے ایجاد کیے ہیں۔ اگر کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے یا اس کی آبرو ریزی کرتا ہے تو سماج مرد کو قصوروار مانتے ہوئے اسے سزا دینے کی بجائے عورت کو ہی بدچلن ہونے کا الزام دیتا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی عورت یہ نہیں چاہے گی کہ سماج اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھے۔ عصمت دری کے معاملے میں متاثرہ عورت اور اس کی فیملی کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پہلے تو پولس انہیں برا بھلا کہتے ہوئے معاملہ درج کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور اگر میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے معاملہ درج ہو بھی گیا تو پولس معاملے کو لٹکائے رکھتی ہے۔ ایسے متعدد معاملے سامنے آ چکے ہیں، جب پولس نے عصمت دری کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہوئے متاثرین کے ساتھ ظلم کیا۔ اگر کوئی متاثرہ خاتون ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے، انصاف پانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو اسے وہاں بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ عدالت میں اس خاتون کو بدچلن ثابت کر دیا جاتا ہے اور کمزور قانونی نظام کی وجہ سے ملزم آسانی سے بچ نکلتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق، پولس میں درج ایسے معاملوں میں صرف دو فیصد لوگوں کو ہی سزا ہو پاتی ہے، جب کہ 98 فیصد لوگ باعزت بری ہو جاتے ہیں، مگر عورتوں کو اس کا خمیازہ تا عمر سماج کے طعنے سن کر بھگتنا پڑتا ہے۔ اس سے جہاں ان کی زندگی متاثر ہوتی ہے، وہیں انفرادی ترقی اور سماج میں اہم حصہ داری میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ عصمت دری کے معاملے میں سماج کو بھی اپنا نظریہ بدلنا ہوگا۔ اسے متاثرہ خاتون کے تئیں ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے عصمت دری کرنے والے کو سزا دلانے میں اپنا رول طے کرنا ہوگا۔ عصمت دری کرنے والے کہیں باہر سے نہیں آتے ہیں، وہ اسی سماج کا حصہ ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں پر تمام پابندیاں لگانے کی بجائے اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کریں، انہیں با اخلاق بنائیں، تاکہ وہ سماج میں گندگی نہ پھیلا سکیں۔

Friday, March 23, 2012

پنجاب اسمبلی انتخابات کے نتائج: کانگریس کی ہار کا سبب پنجاب پیپلز پارٹی‎


فردوس خان 
پنجاب میں شرومنی اکالی دل – بی جے پی اتحاد کو دوبارہ اقتدار پر قابض ہونے میں وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کے بھتیجے اور سابق وزیر مالیات من پریت سنگھ بادل نے اہم رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے شرومنی اکالی دل سے الگ ہو کر پنجاب پیپلز پارٹی کی تشکیل کی اور انتخابی میدان میں کود پڑے۔ پنجاب پیپلز پارٹی اور سانجھا مورچہ کے امیدواروں نے یہاں سب سے زیادہ کانگریس کو نقصان پہنچایا۔ کانگریس کے اس نقصان کا سیدھا فائدہ شرومنی اکالی دل – بی جے پی اتحاد کو ملا۔ یہ سب ہوا من پریت سنگھ بادل کی غلط حکمت عملی کے سبب۔ دراصل، وہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ انہیں حاصل کیا کرنا ہے۔ وہ یہ طے نہیں کر پائے کہ انہیں شرومنی اکالی دل اور بی جے پی اتحاد کی سرکار سے مقابلہ کرنا ہے یا پھر اہم اپوزیشن پارٹی 

کانگریس سے۔ اپنی اسی غلطی کے سبب وہ اپنے سب سے بڑے دشمن شرومنی اکالی دل کو ہی جیت دلا بیٹھے۔
انتخابی نتائج پر غور کریں تو یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ پنجاب پیپلز پارٹی نے کانگریس کو ہرانے اور شرومنی اکالی دل کو جتانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ صوبہ میں دو درجن سے زیادہ سیٹیں ایسی ہیں، جہاں پنجاب پیپلز پارٹی اور سانجھا مورچہ کے امیدواروں کو ملے ووٹ کانگریس امیدواروں کے کھاتے میں جوڑ دیے جائیں تو وہ جیت جاتے ہیں۔ پنجاب پیپلز پارٹی کو 5.7 فیصد ووٹ ملے، جو کانگریس کی ہار کی سب سے بڑی وجہ بنے۔ صوبہ کی تقریباً 27 سیٹوں پر انہوں نے شرومنی اکالی دل اور بی جے پی کے امیدواروں کو جیت دلائی۔ حالت یہ رہی کہ کئی سیٹوں پر ان کے امیدواروں نے پانچ سے 25 ہزار ووٹ لے کر کانگریس امیدواروں کو ہرانے کا ہی کام کیا۔ تین چار سیٹوں کو چھوڑ دیا جائے تو باقی سیٹوں پر کانگریس امیدواروں کی جیت طے تھی۔ کانگریس کے سینئر لیڈر مان رہے ہیں کہ باغیوں کی وجہ سے کانگریس نے 9 سیٹیں گنوائی ہیں۔ پنجاب میں کانگریس کے ساتھ سخت مقابلہ تھا، کئی سیٹوں پر تو اس نے کڑی ٹکر بھی دی۔

فلور اسمبلی حلقہ میں کانگریس امیدوار سنتوش سنگھ چودھری اکالی دل کے امیدوار اویناش چندر سے محض 31 ووٹوں سے ہار گئے۔ یہاں پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدوار نے کانگریس کے ووٹ کاٹے۔ اسی طرح پٹی اسمبلی حلقہ میں کانگریس امیدوار ہرمندر سنگھ گل اکالی دل کے امیدوار آدیش پرتاپ سنگھ سے صرف 45 ووٹوں سے ہار گئے۔ یہاں پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 2208 ووٹ لے کر کانگریس کو جیت سے دور کر دیا۔ اس کے علاوہ جالندھر ضلع کی شاہ کوٹ، کرتارپور، جالندھر کینٹ اور جالندھر سنٹرل سیٹ پر پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے سبب کانگریس کی ہار ہوئی۔ نواں شہر ضلع کی بالچور سیٹ پر پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 18988 ووٹ لے کر کانگریس امیدوار کو تیسرے پائدان پر پہنچا دیا۔ روپڑ سیٹ پر پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 25024 ووٹ حاصل کرکے شرومنی اکالی دل کے امیدوار دلجیت سنگھ چیما کو جیت جلا دی۔ فتح گڑھ صاحب ضلع کے بسی پٹھانا میں تو شرومنی اکالی دل کا امیدوار باہری ہونے کے باوجود جیت گیا۔ یہاں پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 11344 ووٹ لے کر کانگریس کو ہرانے کا کام کیا۔ لدھیانہ ضلع کی گل، پائل اور جگراؤ سیٹ پر بھی پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی وجہ سے ہی کانگریس کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ موگا ضلع کی نہال سنگھ والا اور دھرم کوٹ سیٹ پر بھی کانگریس امیدواروں کو جیت دلانے میں پنجاب پیپلز پارٹی روڑا بنی۔ فیروزپور دیہاتی سیٹ پر پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 7621 ووٹ لے کر کانگریس امیدوار کو ہرانے کا کام کیا۔ پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے بھٹنڈا ضلع کی رامپورہ پھل سیٹ پر 23398، بھٹنڈا شہری سیٹ پر 10755، بھٹنڈا دیہات سیٹ پر 17655 اور موڈ منڈی سیٹ پر 23398 ووٹ لے کر کانگریس امیدواروں کو نقصان پہنچایا۔ اسی طرح مانسا سیٹ پر پنجاب پیپلز پارٹی کا امیدوار 30 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر کانگریس امیدوار کی جیت میں رکاوٹ بنا۔ بڈلاڈا سیٹ پر بھی پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 29 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر کانگریس امیدوار کو جیت سے دور کر دیا۔ سنگرور اور امرگڑھ سیٹوں کا بھی یہی حال رہا۔ اسی طرح پٹیالہ ضلع کی گھنور اور شُترانا سیٹوں پر بھی پنجاب پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے 17 س   20ہزار 
ووٹ لے کر کانگریس کو جیت سے دور کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

بیٹے کے پیار نے بھی کانگریس کی ایک سیٹ گنوانے کا کام کیا۔ کیپٹن امرندر سنگھ کی ایم پی بیوی پرنیت کور چاہتی تھیں کہ بیٹے رنندر سنگھ کو سیاست میں آگے بڑھایا جائے۔ سمانا سیٹ سے رنندر سنگھ کو انتخابی میدان میں اتارا گیا، جب کہ یہاں سے کیپٹن کے بھائی ملوندر سنگھ کانگریس ٹکٹ کے مضبوط دعویدار تھے۔ پارٹی کی اندرونی رسہ کشی نے بھی کانگریس کو نقصان پہنچانے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑی۔ کیپٹن امرندر سنگھ اور سابق وزیر اعلیٰ راجندر سنگھ بھٹل کے حامیوں میں بالادستی قائم کرنے کی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ عالم یہ تھا کہ پارٹی کے 18 لوگ باغی ہوگئے اور ان کی وجہ سے اہم سیٹوں پر پارٹی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔

بہرحال، اگر من پریت سنگھ بادل کانگریس کو حمایت دے دیتے یا اس سے گٹھ جوڑ کر لیتے تو وہ اپنی پارٹی کو اقتدار میں دیکھ پاتے۔ ایسا کرنے سے ان کی پارٹی کو فائدہ ہی ہوتا۔ کہتے ہیں کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، لیکن وہ تو دشمن کے دشمن کو دوست بنانے کی بجائے اپنا دشمن بنا بیٹھے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے بھی پنجاب میں کانگریس کی ہار کے لیے پنجاب پیپلز پارٹی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب پیپلز پارٹی نے کانگریس کو 23 سیٹوں پر نقصان پہنچایا۔ اس پارٹی نے ووٹ بانٹنے کا کام کیا۔ اگر یہ پارٹی نہیں ہوتی تو یہ سبھی سیٹیں کانگریس کو ہی ملتیں۔ حالانکہ پارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امرندر سنگھ نے ہار کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو چونکانے والا قرار دیا ہے۔ پہلے انہوں نے کہا کہ پارٹی کے باغیوں کی وجہ سے کانگریس کو انتخاب میں کامیابی نہیں مل پائی۔ بعد میں انہوں نے یہ بھی مانا کہ پنجاب پیپلز پارٹی سے بھی کانگریس کو نقصان ہوا ہے۔

پنجاب میں کانگریس کی ہار سے کیپٹن امرندر سنگھ کا اقتدار پر قابض ہونے کا خواب بھلے ہی ٹوٹ گیا ہو، لیکن انتخاب میں وہ اپنے مد مقابل کو بھاری ووٹوں کے فرق سے ہراکر اپنا دبدبہ بنائے رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے سب سے قریبی مد مقابل شرومنی اکالی دل کے امیدوار سرجیت سنگھ کوہلی کو 42318 ووٹوں سے ہرا کر پٹیالہ سیٹ جیت لی، لیکن وہ اپنے بیٹے رنندر سنگھ کو سمانا سیٹ سے جیت نہیں دلا پائے۔ من پریت سنگھ بادل کا کہنا ہے کہ اس انتخاب میں پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا۔ شرومنی اکالی دل اور کانگریس نے انتخاب میں ہر ایک امیدوار پر پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ ہماری پارٹی کی مالی حالت اچھی نہیں ہے، اس لیے ہم ایسا نہیں کر پائے، جس کے سبب ہمیں امید کے مطابق کامیابی نہیں مل پائی۔  

ووٹنگ فیصد کے حساب سے کانگریس کو فائدہ ہوا
پنجاب میں شرومنی اکالی دل – بی جے پی اتحاد اقتدار پر دوبارہ قابض ہونے میں تو کامیاب ہو گیا ہے، لیکن دونوں ہی پارٹیوں کی عوامی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ پنجاب میں 117 سیٹوں والی اسمبلی میں شرومنی اکالی دل نے 56 سیٹیں حاصل کی ہیں۔ شرومنی اکالی دل کے ووٹنگ فیصد میں بھی 2.34 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ اس انتخاب میں شرومنی اکالی دل کا ووٹنگ فیصد گھٹ کر 34.75 فیصد رہ گیا ہے۔ گزشتہ انتخاب میں یہ شرح 37.9 فیصد تھی۔ بی جے پی کا ووٹ بھی 1.15 فیصد گھٹا ہے۔ اس بار 7.13 فیصد ووٹروں نے بی جے پی کو ووٹ دیے ہیں، جب کہ پچھلی بار یہ شرح 8.28 فیصد تھی۔ کانگریس نے اس انتخاب میں 46 سیٹوں پر جیت کا پرچم لہرایا ہے۔ حالانکہ کانگریس کو امید تھی کہ وہ پنجاب میں سرکار بنانے میں کامیاب ہو جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ مگر کانگریس کے لیے یہ بات راحت دینے والی ہے کہ اس کے ووٹنگ فیصد میں اضافہ ہوا ہے۔ کانگریس کا ووٹنگ فیصد بڑھ کر 40.90 ہو گیا ہے، جو 2007 کے گزشتہ اسمبلی انتخاب میں 40.11 فیصد تھا۔ اس طرح کانگریس کے ووٹنگ فیصد میں 0.79 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ پچھلی بار کانگریس نے 42 سیٹیں جیتی تھیں، جب کہ اس بار اسے چار سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔