Wednesday, May 22, 2013

زخم ابھی تازہ ہیں، ٹیس ابھی باقی ہے...


فردوس خان
وقت  بدلا، حالات بدلے، لیکن نہیں بدلیں تو زندگی کی دشواریاں، آنسوئوں کا سیلاب نہیں تھما، اپنوں کے گھر لوٹنے کے انتظار میں پتھرائی آنکھوں کی پلکیں نہیں جھپکیں، اپنوں سے بچھڑنے کی تکلیف سے بے حال دل کو قرار نہ ملا۔ یہی ہے میرٹھ فساد متاثرین کی داستان۔میرٹھ کے ہاشم پورہ میں 22مئی 1987اور ملیانہ گائوں میں23مئی 1987کو حیوانیت کا جو ننگا ناچ ہوا، اس کے نشان آج بھی یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان فسادوں نے یہاں کے باشندوں کی زندگی کو پوری طرح تباہ کر دیا۔ عورتوں کو بیوہ بنا دیا، بچوں کے سر سے باپ کا سایہ ہمیشہ کے لیے اٹھ گیا۔ کئی گھروں کے چراغ بجھ گئے۔ فسادیوں نے گھروں میں آگ لگا دی، لوگوں کو زندہ جلا دیا، عورتوں کو تلوار وںسے کاٹا گیا، معصوم بچوں کو بھی آگ کے حوالہ کر دیا گیا۔عالم یہ تھا کہ لوگوں کو دفنانے کے لیے جگہ کم پڑ گئی۔ یہاں کے قبرستان کی ایک ایک قبر میں تین تین لوگوں کو دفنایا گیا۔یہاں مرنے والے زیادہ ماتم کرنے والے کم تھے، جو زندہ تھے، وہ بھی زندہ لاش بن کر رہ گئے۔ برسوں تک کانوں میں اپنوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں گونجتی رہیں۔ انسانوں سے آباد ایک پوری بستی شمشان میں تبدیل ہو چکی تھی، جہاں صرف آگزنی اور تباہی کا ہی منظر تھا۔

ملیانہ کے محمد یونس اپنے بھائی محمود کا کھنڈر ہو چکا مکان دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کبھی یہاں ایک خوشحال خاندا ن رہتا تھا، گھر میں بچوں کی کلکاریاں گونجتی تھیں، لیکن آج یہ پوری طرح ویران ہے۔23مئی کو فسادیوں نے اس گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اس آگ میں ان کے بھائی محمود، بھابھی نسیم اور چار بچے عارف، وارث، آفتاب اور مسکان جل کر مر گئے۔جب مکان سے لاشیں نکالی گئیں تو ان کے بھائی اور بھابھی نے اپنے بچوں کو سینہ سے لگایا ہوا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر ان کی روح تک کانپ اٹھی۔بعد میں ان لاشوں کو ایسے ہی دفنا دیا گیا۔ اس حادثہ میں ان کی بھتیجی تبسم بچ گئی ، جو اس وقت اپنی نانی کے گھر گئی ہوئی تھی۔

بیٹے دلشاد کا نام آتے ہی علی حسن کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت دلشاد کی عمر آٹھ سال تھی۔ فسادیوں نے پہلے تو پیر پکڑ کر اسے زمین پر پٹخ پٹخ کر مارا ، پھر اس کے بعد جلتے ہوئے رکشہ پر پھینک دیا۔ وہ زندہ جل کر مر گیا۔ فسادیوں نے اس کے گھر کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے بجھا دیا۔ معراج نے بتایا کہ فسادیوں نے ان کے والد محمد اشرف کی گردن میں گولی ماری اور انھوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔یہیں کے یامین بتاتے ہیں کہ فسادیوں نے ان کے والد محمد اکبر کو پہلے تو بری طرح پیٹا اور پھر بعد میں انہیں زندہ جلادیا تھا۔
محمودن بتاتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے گھر میں آ گ لگا دی تھی، جس میں ان کے سسر عبد الرشید اور ساس عیدیہ کی جل کر موت ہو گئی تھی۔ آگ اتنی ہولناک تھی کہ ان کے ساس سسر کی لاشیں تک نہیں مل پائیں۔ ان کے شوہر نواب اپنے بھائی صابر، مظفر کے ساتھ کسی دوسرے گھر میں گئے ہوئے تھے۔ وہ اپنی نندوں شبانہ اور بانو اور بچوں رئیس الدین ، رئیسہ اور شہاب الدین کو لے کر پہلے ہی گھر سے نکل کر وہاں آ چکی تھیں، جہاں گائوں کے لوگ جمع تھے۔یہاں انھوں نے کئی دنوںتک فاقے کیے۔ اس حادثہ کے بعد وہ مع کنبہ اپنے مائکہ شید پور چلی گئیں۔ کچھ وقت بعدان کے شوہر ملیانہ آئے اور ایک عدد چھت کا بندوبست کیا۔

رضیہ بتاتی ہیں کہ اس وقت ان کی شادی ہوئی تھی۔ گھر میں اچھی خاصی رونق تھی، لیکن فسادیوں نے اس خوشی کو ماتم میں بدل دیا۔ فسادیوں نے پہلے تو گھر میں لوٹ مار کی، پھر آگ لگا دی۔ ان کے سسر اللہ راضی کو بری طرح پیٹا گیا۔ شکیلہ روتے ہوئے کہتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے شوہر اشرف کو گولی مار کر ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے تباہ کر ڈالی۔ اگر فسادیوں نے انہیں بھی مار دیا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ جنت بتاتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے گھر میں بھی آگ لگا دی تھی، کسی طرح انھوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ آٹھ دنوں کے بعد جب ان کا پریوار گھر لوٹا تو دیکھا کہ راکھ اب بھی گرم تھی۔فسادیوں کے قہر کی انتہا تو تب ہو گئی جب فسادیوں نے حاملہ کنیز کو تلوار سے کاٹ ڈالا ۔ اسی طرح شہانہ کے پیٹ کو بھی تلوار سے کاٹ دیا۔ اس کی آنتیں باہر آ گئیں اور وہ اپنی آنتوں کو ہاتھ میں لے کر بدحواس دوڑ پڑی۔اس حادثہ کے بعد اس نے گائوں ہی چھوڑ دیا۔بھورا کی بھانجی کے پیر میںگولی ماری گئی۔

بجلی کے سامان کی مرمت کرنے والے حشمت علی اپنے زخم دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پی اے سی کے جوانوں نے ان کے گھر کی تلاشی لی تھی اور اس میںانہیں پیچ کس ملا ۔ اس پر انہیں بے رحمی سے پیٹا گیا۔ ان کی ٹانگ توڑ دی گئی۔ وکیل احمد کے جسم پر بھی گولیوں کے نشان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پیٹ پر دو گولیاں ماری گئیں، جس سے ان کی ایک کڈنی خراب ہو گئی۔ محمد رضا بتاتے ہیں کہ پی اے سی کے جوانوں نے ایک گولی سے دو لوگوں کا قتل کیا۔نصیر احمد کے سر میں گولی ماری گئی ، جو ان کے پیچھے کھڑے ایک دوسرے آدمی کی گردن میں لگ  گئی اور دونوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔نوشاد بتاتے ہیں کہ اس وقت وہ چھوٹے تھے۔ فسادیوں کا قہر دیکھ کر ان کا دل دہل اٹھا تھا۔ وہ دہشت آج بھی ان کے دل پر طاری ہے۔ آج بھی جب ان فسادات کا ذکر آتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کل کا ہی واقعہ ہو۔

ہاشم پور ہ کی نسیم بانو کا کہنا ہے کہ ان کا ایک ہی بھائی تھا سراج احمد۔پی اے سی کے جوان اسے بھی اٹھا کر لے گئے اور گنگا نہر کے کنارے اسے گولی مار کر ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔ گھر کے چشم و چراغ کی موت کے بعد ان کے والد شبیر احمد بری طرح ٹوٹ گئے اور اس کی والدہ کی دماغی حالت خراب ہو گئی۔ اس دلسوز حادثہ کے 10سال بعد ان کی موت ہو گئی، لیکن آخری سانس تک انھوں نے اپنے بیٹے کا انتظار کیا۔ انہیں اس بات پر کبھی یقین ہی نہیں آیا کہ اب ان کا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہے۔ا ن کی دو بہنیں اپنی سسرال میں ہیں، جب کہ وہ اور ان کی ایک بہن فاطمہ طلاق شدہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بھائی کی موت نے پورے خاندان کو منتشر کر کے رکھ دیا۔ آج ان کا بھائی زندہ ہوتا تو ان کی زندگی ہی کچھ اور ہوتی۔ ہاجرہ کے بیٹے نعیم اور پیرو کے بیٹے نظام الدین کو بھی پی اے سی کے جوان اٹھا کر لے گئے تھے اور انہیں بھی گولی مار کر نہر میں پھینک دیا تھا۔زرینہ تو آج بھی اس خوفناک منظر کو یاد کرکے کانپ اٹھتی ہیں، جب پی اے سی اہلکار ان کے شوہر ظہیر احمد اور بیٹے جاوید اختر کو گھر سے گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے، بعد میں دونوں کی موت کی خبر ہی ملی۔ امینہ کے شوہر زین الدین اور دو بیٹوں جمشید احمد اور شمشاد احمد کو بھی پی اے سی کے جوان جبراً گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے۔ ان کے بیٹوں کو گولی مار کر نہر کے حوالہ کر دیا گیا اور شوہر کو جیل بھیج دیا گیا۔ سوا مہینہ بعد زین الدین گھر لوٹے تو ان کے زخم پولس کی حیوانیت کو بیان کر رہے تھے۔ان پر اس قدر ظلم کیے گئے کہ ان کے ہاتھ پیر ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گئے۔ اب وہ معذوروں کی زندگی جی رہے ہیں۔ امینہ بھی بیٹوں کے غم میں اس قدر غمزدہ ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر چل تک نہیں پاتیں۔ رفیقن بتاتی ہیں کہ پی اے سی نے ان کے شوہر حطیم الدین کو بری طرح پیٹا اور بیٹے علاء الدین کو نہر کنارے لے جا کر گولی مار دی اور اس کی لاش بھی ندی میں پھینک دی۔

عورتیں ہی نہیں، بزرگ بھی اپنی اولادوں کو یاد کر کے خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ جمال الدین کے بیٹے قمر الدین کو بھی دو گولیاں ماری گئیں۔پہلے وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر قینچیوں کا کارخانہ چلاتے تھے۔ ان کا بیٹا ہی نہیں، بلکہ کاروبار بھی فساد کی نذر ہو گئے۔ اب وہ ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان کے سہارے دو وقت کی روٹی جٹا پا رہے ہیں۔ شاہد انصاری کے والد الٰہی انصاری بھی میرٹھ فسادات میں مارے گئے اور وہ یتیم ہو گئے۔ موت کے منھ سے بچ کر آئے ذوالفقار بتاتے ہیں کہ پی اے سی نے انہیں بھی گولی مار کر نہر میں پھینک دیا تھا، لیکن وہ کسی طرح بچ کر آ گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پی اے سی کے چنگل سے  بچے لوگوں کے ہاتھ پیڑ توڑ دیے گئے۔وہ کھانے کمانے کے لائق نہیں رہے۔ محمد یامین بتاتے ہیں کہ ان سے پی اے سی  کے اہلکاروں نے پوچھا کہ کہاں رہتے ہو تو علاقہ کا نام بتاتے ہی انہیں لے جا کر جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔عبد الحمید کا سر بھی پھوڑ دیا گیا۔ان کے زخموں کے نشان آج بھی ان کے درد کو بیاں کر رہے ہیں۔ شکیل کا کہنا ہے کہ جب پی اے سی کے جوان اس کے بھائی نعیم کو اٹھا کر لے جا رہے تھے، تب وہ ان کے پیروں سے لپٹ گیا، لیکن ایک معصوم بچے کے آنسو بھی انہیں روک نہیں پائے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس حادثہ کے بعد علاقہ میں صرف عورتیں اور بچے ہی بچے تھے۔ کئی کئی دنوں تک انہیں روٹی کا ایک نوالہ تک نصیب نہیں ہوتا تھا۔ بچے اسی آس میں دن بھر سڑک کے چکر لگاتے تھے کہ کہیں سے کوئی گاڑی آئے اور انہیں راشن دے دے۔ انتظامیہ کی امداد بھی برائے نام تھی۔ کبھی کبھار ہی سرکاری نمائندے آتے اور انہیں دال چاول اور آٹا دے جاتے تھے۔ اس کے سہارے بھلا کتنے دن پیٹ بھر پاتا۔

Monday, May 06, 2013

!ویلفیئر پارٹی آف انڈیا : مسلمانوں کی توقعات پر کتنی کھری اترے گی‎


فردوس خان 
ایک نئی پارٹی بنی ہے۔ اس پارٹی کی افتتاحی تقریب میں ایک عیسائی پادری نے گائتری منتر پڑھا تو تعجب ہوا، کیوں کہ اس پارٹی کیبنیاد میں جماعت اسلامی ہے، جس کے بارے میں لوگ یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک کٹر مسلم تنظیم ہے۔ یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کے بارے میں کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں سوچتی ہے، صرف نعرے ہی دیتی ہے۔ ہندوستانی سیاست میں موقع پرستی کے درمیان یہ مسلمانوں کی ضرورت بن گئی تھی کہ ایک ایسی سیاسی جماعت ہو جو مسلمانوں کے درد سمجھے، ان کے چیلنجز کو جانے، مسلم نوجوانوں کے روزگار کے لیے لڑے، ان کے سوالوں کو پارلیمنٹ میں اٹھائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی کی ویلفیئر پارٹی مسلمانوں کی اس ضرورت کو پورا کرپائے گی؟

جمہوریت کے پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعتوں کا سب سے اہم رول ہوتا ہے۔ ملک میں تقریباً 1200 سیاسی جماعتیں ہیں، ان میں سے 6 نیشنل پارٹی، 44 صوبائی پارٹی اور 1152 مقامی پارٹیاں ہیں۔ حال ہی میں بابا رام دیو نے بھی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ہندوستان کی سیاست میں ایک اور پارٹی نے جنم لیا ہے۔ یہ پارٹی اس لیے اہمیت کی حامل ہے کیوںکہ یہ ملک کی مسلم تنظیم جماعت اسلامی ہند کی پارٹی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس پارٹی کا نام ’’ویلفیئر پارٹی آف انڈیا‘‘رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کو سیاسی جماعت بنانے کی کیا ضرورت پڑی؟ اس پارٹی کی آئیڈیالوجی کیا ہے؟ کیا یہ پارٹی صرف مسلمانوں کی پارٹی ہے؟ کیا یہ پارٹی صرف مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گی؟ کیا یہ انتخاب لڑے گی؟ کن کن پارٹیوں سے یہ اتحاد قائم کرسکتی ہے؟ اس پارٹی کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی ویژن کیا ہیں؟ اس پارٹی سے کن پارٹیوں کو فائدہ ہوگا اور کن پارٹیوں کو نقصان ہوگا؟ ایسے کئی سوال ہیں، جن کے بارے میں ملک کے عوام اور خاص طور سے مسلمانوں کو جاننا ضروری ہے۔

جماعت اسلامی کا قیام 26 اگست 1941کو لاہور میں ہوا تھا۔ ملک کی تقسیم کے بعد جماعت اسلامی بھی تقسیم ہوگئی۔ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بنگلہ دیش میںبھی جماعت اسلامی ہے۔ سیاست میں حصہ بھی لیتی ہے۔ ہندوستان میں جماعت اسلامی پر حکومت نے دو بار پابندی لگائی ہے۔ پہلی بار ایمرجنسی کے دوران اور دوسری بار 1992 میں۔ پہلی بار ایمرجنسی کے ختم ہوتے ہی پابندی ہٹ گئی اور دوسری بار سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹائی۔ سپریم کورٹ نے اس وقت یہ کہا تھا کہ جماعت اسلامی ایک سیاسی، سیکولر اور مذہبی تنظیم ہے۔ ملک میں جماعت اسلامی کے لاکھوں حامی ہیں۔ اس کے 10 لاکھ سے زیادہ ممبران ہیں۔ مانا یہ جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کے ممبران کافی اصول پسند اور ایماندار ہیں۔ یہ ملک میں فلاح و بہبود کی کئی اسکیمیں چلاتی ہے۔ جماعت اسلامی کا خواتین مورچہ بھی ہے، جو آندھراپردیش اور کیرالہ میں کافی سرگرم ہے۔ جماعت اسلامی کی ایک برانچ ہے ہیومن ویلفیئر ٹرسٹ ،جو کئی این جی او کے بیچ کوآرڈینیٹ کرتی ہے۔ جماعت سے وابستہ این جی او، سماجی فلاح اور انسانی حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا اس کی اسٹوڈنٹ ونگ ہے،یوں تو یہ پورے ملک میں ہے لیکن آندھراپردیش اور کیرالہ میں زیادہ سرگرم ہے۔ جماعت اسلامی ہند مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ نئی پارٹی کے اعلان کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پارٹی کی آئیڈیا لوجی کیا ہے؟ کیا یہ صرف مسلمانوں کے مسائل کو اٹھائے گی یا پھر مسلمانوں کو قومی ایشو سے جوڑے گی؟ جماعت اسلامی کی آئیڈیالوجی کے لیے اس کے 2006 کے دستاویز ویژن 2016 کا جاننا ضروری ہے۔ جماعت نے 550 کروڑ روپے کے بجٹ سے غریب مسلمانوں کی تعلیم، صحت اور گھر کے لیے ایک ایکشن پلان تیار کیا تھا۔ اس پلان کے تحت 58 پسماندہ اضلاع کو منتخب کیا گیا۔ ان اضلاع میں اسکول، ہاسپیٹل، ووکیشنل ٹریننگ سینٹر، اسمال اسکیل انڈسٹری اورسستے مکانوں کے لیے قرض دینے کی سہولت ہے۔ جماعت اسلامی کی آئیڈیا لوجی بازاری پن، گلوبلائزیشن اور لبرل ازم کے خلاف ہے۔ یہ غیرملکی سرمایہ، سیج، صحت، تعلیم اور دوسری خدمات، زراعت میں سبسڈی کے ختم کیے جانے کی سرکاری پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہے۔ جماعت کا ماننا ہے کہ ملک کے لوگوں کو ہر قسم کی سہولت دینا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ جماعت اسلامی ہر قسم کی دہشت گردی کی بھی مخالفت کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کی خارجہ پالیسی امریکہ مخالف ہے۔ جماعت اسلامی الیکشن میں سرگرم کردار ادا کرتی ہے۔ الگ الگ صوبوں میں یہ الیکشن کے دوران حکمت عملی بناتی ہے۔ کس پارٹی کو حمایت دینی ہے، یہ جماعت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتی ہے۔ اس بار کے اسمبلی انتخابات میں کیرالہ میںماکپاکے لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کو جماعت کی کھلی حمایت ملی ہے۔ جماعت اب تک کے انتخابات میں سیکولر پارٹیوں کوحمایت دیتی رہی ہے۔ جب کہ اس پر بی جے پی کو حمایت دینے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کا سیاسی رشتہ کوئی نیا نہیں ہے۔ پہلے یہ ایک پریشر گروپ کی طرح کام کرتی تھی، اب سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے الیکشن نہیں لڑتی تھی، اب الیکشن لڑ ے گی تو اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جماعت اسلامی کے لیڈران کو الیکشن لڑنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس سوال پرجماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ آزاد ملک میں مسلمان خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتے ہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت نے ان کی کبھی خیر خبر نہیں لی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسی سیاسی پارٹی بنے جو مسلمانوں کے لیے ایمانداری سے کام کرے۔ جماعت کے سینئررکن ا ور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر مجتبیٰ فاروق کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی بدتر حالت کو دیکھتے ہوئے جماعت کو پہلے ہی اپنی سیاسی پارٹی بنالینی چاہیے تھی۔ نئی پارٹی کا مقصد مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے اقتدار میں حصہ داری کو یقینی بنانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پارٹیوں کی قطار سے منسلک ہونے کے لیے سیاست میں نہیں آرہے ہیں۔ ہمارا مقصد ملک کے عوام کو ایک نیا متبادل مہیا کرانا ہے۔ یہ پارٹی سب کی ہے۔ ہم سبھی کی آواز بننا چاہتے ہیں۔ ویلفیئر پارٹی کی ایگزیکٹیو میں فی الحال 31 ممبران ہوںگے۔ الیاس اعظمی، فادر ابراہیم جوزف، مولانا عبدالوہاب خلجی، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اورللیتا نائر کو نائب صدر بنایا گیا ہے۔ سید قاسم رسول الیاس، سہیل احمد، پروفیسر رما پانچل، خالدہ پروین اور پی سی حمزہ کو پارٹی کا جنرل سکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر رما سوریہ راؤ، اخترحسین اختر، عامر رشید اور پروفیسر سبرامنیم پارٹی کے سکریٹری ہوںگے۔ عبدالسلام اصلاحی کو خازن بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرسکتی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے سوال پر ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ یہ ایک فرقہ پرست پارٹی ہے۔ کشمیر کی علیحدگی پسند پارٹیوں کے بارے میں بھی ان کا یہی جواب رہا، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی چاہیے۔ جموں و کشمیر کے تئیں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ کسی کو اتنا مجبور بھی نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ ہتھیار اٹھا لے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی نوجوانوں اور خواتین کو بھی انتخابی میدان میں اتارے گی اور غیرمسلموں کو بھی پارٹی کے ٹکٹ دیے جائیںگے۔ ان کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کو ہندوستانی شہری ہونے کے ناطیجو حقوق ملنے چاہئیں ، صحیح معنوں میں ابھی تک وہ نہیں مل پائے ہیں۔ مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ کب حالات بدلیں اور ان کی جان اور مال کو خطرہ پیدا ہوجائے۔ ملک کے موجودہ نظام کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے امیر کو مزید امیر اور غریب کو مزید غریب بنانے کا ہی کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی مسلمانوں کوان کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کرے گی۔ مسلمانوں کو ریزرویشن دلانے، اسلامی بینکنگ نظام کا قیام اور سچر کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرانے پر بھی زور دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مہنگائی اور بدعنوانی جیسے ایشو بھی اٹھائے جائیںگے۔

ویلفیئر پارٹی کے نشانے پر سب سے پہلے اترپردیش کا الیکشن ہے۔ فی الحال اس پارٹی کا دخل جنوب کی ریاستوں اور اترپردیش کی سیاست میں ہوگا۔ اگر جماعت اسلا می اترپردیش کے الیکشن میں اپنی طاقت لگادے اور اگر اسے مسلمانوں کی حمایت ملی تو ملک کی سیاست میں سونامی آسکتی ہے، جس کا اثر ہر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی پر پڑے گا۔اس کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور سب سے بڑا نقصان سماجوادی پارٹی کو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کا اعلان ہوتے ہی سماجوادی پارٹی سے تیکھا رد عمل سامنے آیاہے۔ سماجوادی پارٹی کے جنرل سکریٹری اور ترجمان موہن سنگھ نے کہا کہ یہ سب بی جے پی کا کھیل ہے اور کچھ نہیں، عوام بے وقوف نہیں ہیں۔ لوگ سب جانتے ہیں۔ اگر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا الیکشن لڑتی ہے تو عوام اس کے امیدواروں کو ر جیکٹ کردیںگے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذہبی جماعتوں کا سیاست میں کوئی کام نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے مذہبی کاموں پر ہی دھیان دیں۔ غور طلب ہے کہ اترپردیش کے زیادہ تر مسلمان سماجوادی پارٹی کے حامی رہے ہیں۔ ایسے میں نئی پارٹی کے آجانے سے سماجوادی پارٹی کے مسلم ووٹ بینک پر اثر پڑ سکتا ہے۔ نقصان صرف سماجوادی پارٹی کا ہی نہیں ہوگا۔ راہل گاندھی کانگریس پارٹی کو پھر سے مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کا مظاہرہ اچھا رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پوروانچل کے مسلم اکثریتی علاقوں میں کانگریس کو زبردست حمایت ملی۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جماعت کی طاقت بھی انہیں علاقوں میں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کانگریس پارٹی سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرانے میں اب تک ناکام رہی ہے، جس سے کانگریس پارٹی کی مسلم حمایت کم ہونا تقریباً طے ہے۔ فتح پوری مسجد کے شاہی امام مفتی محمد مکرم احمد کا کہنا ہے کہ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کا سیاست میں آنا بے حد ضروری ہے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی ایک سیاسی پارٹی ہو۔ ایسی پارٹی جو ایمانداری کے ساتھ قوم کی ترقی کے لیے کام کرے۔ جب تک مسلمانوں کی اقتدار میں حصہ داری نہیں ہوگی، تب تک ان کی حالت بہتر ہونے والی نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی کانگریس جیسی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے لیے کوئی اطمینان بخش کام نہیں کیا ہے۔

مسلمانوں کی حالت دلتوں سے زیادہ اچھی نہیں ہے۔ دلتوں کی ملک میں کئی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کی آواز کو اٹھانے کے لیے ایک سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے، اس میں دورائے نہیں ہوسکتی ہے، لیکن اس پارٹی کے الیکشن میں اترتے ہی اسے سیکولر پارٹیوں کی مخالفت جھیلنی پڑ سکتی ہے۔ کل تک جو لیڈران جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی فائدے کے لیے اچھے رشتے رکھتے تھے، وہی اس پارٹی کے سب سے بڑے دشمن بن جائیںگے۔ اس پارٹی کو مسلم لیڈران کی مخالفت بھی جھیلنی پڑے گی۔ خاص طور پر ان مسلم لیڈران کی جو مسلم ووٹ بینک کا خواب دکھا کر مختلف پارٹیوں میں مضبوط عہدوں پر پہنچے ہوئے ہیں۔ اس پارٹی پر الزامات بھی لگیںگے۔ مسلم لیڈر ہی کہیں گے کہ جماعت نے کبھی مسلمانوں کا بھلا نہیں کیا تو اس کی پارٹی کون سا قوم کو نہال کر دے گی۔اس پارٹی پر یہ بھی الزام لگے گا کہ جماعت نے الیکشن کے دوران بی جے پی کا ساتھ دیا ہے، ان سب سوالوں کا جواب دینا مشکل ہوگا۔مشکل اس لیے کیونکہ یہ پارٹی جتنی مظبوط ہوگی بی جے پی کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔

ویلفیئر پارٹی کی شروعات اچھی ہے۔ آئیڈیا لوجی کے نام پرا مریکہ، عالم کاری، لبرل ازم اور بازاری پن کی مخالفت انہیں عوام سے جوڑے گی۔ جماعت کے پاس مضبوط تنظیمی ڈھانچہ ہے۔ اس کا بھی فائدہ ملے گا۔کارکنان کی کمی نہیںہوگی، لیکن اس پارٹی کو ابھی کئی مشکلوں کا سامنا کرنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی کے پاس کوئی مقبول عام لیڈر نہیں ہے۔پارٹی نے مسلم سماج کے بڑے بڑے لوگوں کو اپنے بینر میں شامل تو کیا ہے، لیکن سیاست کی خاصیت یہ ہے کہ بغیر لیڈر شپ کے پارٹی بکھرنے لگتی ہے۔پارٹی کا لیڈر بننے کی مقابلہ آرائی میں لیڈران آپس میں لڑنے لگتے ہیں۔ ایسے میں پارٹی کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ویلفیئر پارٹی کے سامنے قیادت کا بحران ہے۔ کسی بھی مسلم پارٹی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے پاس ایسا لیڈر ہو جو نہ صرف مسلم سماج کا لیڈر ہو بلکہ اسے ملک کے دوسرے سماج کے لوگ بھی اپنا لیڈر مانیں۔ اب ایسا لیڈر کہاں سے آئے گا یہی جماعت اسلامی کی سب سے بڑی چنوتی ہے۔