فردوس خان
ہمارے ملک کے چھوٹے چھوٹے گاؤں سے لے کر شہروں تک جنگل بنتے جا رہے ہیں، جہاں پر خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اخباروں کے صفحات عصمت دری اور اجتماعی عصمت دری کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ اس سے نمٹنے کے لیے حکومت کو جنوبی کوریا کی طرح سخت قدم اٹھانے ہوں گے۔ حال ہی میں خبر آئی ہے کہ جنوبی کوریا میں عصمت دری کرنے والوں کو نامرد بنا دیا جائے گا۔ جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کی آبروریزی کرنے والے افراد کو سزا دینے کے لیے کیمیکل کا استعمال کرے گا۔ سزا دینے کے لیے پہلی بار کیمیکل کا استعمال کیا جائے گا۔ اس کے لیے قصوروار شخص کی منظوری لینا ضروری نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں بنا قانون 2010 میں ہی منظور کر لیا گیا تھا۔ اس کے تحت پہلی سزا 45 سالہ پارک نامی شخص کو دی گئی۔ پارک پر سیریل ریپسٹ ہونے کا الزام ہے۔ وزارتِ قانون کے مطابق، پارک نے 1980 سے لے کر اب تک چار لڑکیوں کی عصمت دری کی ہے۔ وزارت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ جنسی استحصال کے وہ ملزم اس قانون کے دائرے میں آئیں گے، جن کی عمر 19 سال سے زیادہ ہے اور ان پر 16 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی عصمت دری کرنے کا الزام ہے۔ اس قانون کو لے کر جنسی استحصال کے الزام میں قید لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ ایک اہل کار نے بتایا کہ ان لوگوں نے دوبارہ اپنی رہائی کی اپیل کی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی، جو اپنا گناہ دہراتے ہیں۔ پارک کو جولائی میں جیل سے رہا کر دیا جائے گا، لیکن تین سال تک ہر تین ماہ کے وقفہ کے بعد اسے کیمیکل کا انجکشن دیا جائے گا۔ اسے ایک الیکٹرانک ہیلمٹ پہننا ہوگا اور تین سال تک اس پر نگرانی رکھی جائے گی۔ ملک میں بچوں کے جنسی استحصال کے بڑھتے واقعات کی مخالفت میں لوگوں نے مظاہرے کیے تھے، جس کے بعد جنوبی کوریا نے 2010 میں کیمیکل کے استعمال کے ذریعے قصورواروں کو نامرد بنانے کے عمل کو قانونی منظوری دے دی تھی۔ہم غیر ملکی دشمنوں سے لڑنے کے لیے روزانہ نئی میزائلیں تیار کر رہے ہیں، لیکن اپنے ہی گھر میں ماں، بہن اور بیٹیوں کو تحفظ تک مہیا نہیں کرا پا رہے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم، پلان انڈیا کے ایک سروے کے مطابق، شہری علاقوں میں رہنے والی 70 فیصد لڑکیوں کا ماننا ہے کہ شہر ان کے لیے غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سروے دہلی، ممبئی، حیدرآباد، پُنے، کولکاتا، بنگلورو، پٹنہ، وارانسی، بھونیشور اور رانچی کی دس ہزار لڑکیوں سے بات چیت پر مبنی ہے۔ پلان انڈیا کے گورننگ بورڈ کے چیف اور فلم ڈائریکٹر گووند نہلانی اور اداکارہ اور سماجی کارکن شبانہ اعظمی کے ذریعے جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو زیادہ مواقع مہیا کرانے کا دعویٰ کرنے والی شہری اکائیوں میں ہی لڑکیاں سب سے زیادہ جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ 74 فیصد لڑکیوں کو عوامی جگہوں پر سب سے زیادہ ڈر محسوس ہوتا ہے، جب کہ 69 فیصد لڑکیاں شہروں کے ماحول کو بے حد غیر محفوظ مانتی ہیں۔ اسی طرف سیف سٹیز بیس لائن سروے – دہلی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ راجدھانی دہلی میں 66 فیصد خواتین دن میں دو سے پانچ بار جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ حکومت دہلی کی وزارت برائے فروغِ خواتین و اطفال ، غیر سرکاری تنظیم جاگوری، خواتین کے لیے اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ فنڈ اور یو این ہیبٹیٹ کے ذریعے مشترکہ طور پر کرائے گئے اس سروے کے مطابق، 15 سے 19 سال کی طالبات اور غیر منظم اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو برے برتاؤ کا سامنا سب سے زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ نیشنل کرائم رپورٹ بیورو کے مطابق، ہر آٹھ گھنٹے میں ایک عورت یا بچی کا اغوا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر 12 گھنٹے میں ظلم و جبر، 18 گھنٹے میں عصمت دری، 24 گھنٹے میں جنسی استحصال اور ہر 30 گھنٹے میں اس کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ صرف وہ واقعات ہیں، جن کی خبر میڈیا میں آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جو رونما تو ہوتے ہیں، لیکن سامنے نہیں آ پاتے۔ ملک کا کوئی بھی حصہ خواتین پر ظلم کے واقعات سے اچھوتا نہیں ہے۔ اسکول ہو یا کالج، دفتر ہو یا بازار، ہر جگہ آتے جاتے راستے میں لڑکیوں اور عورتوں کو غیر سماجی عناصر کی بیہودہ حرکتوں اور فقروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں ہی نہیں، بلکہ سرکاری محکموں، یہاں تک کہ پولس محکمہ میں بھی خواتین کو مرد ساتھیوں کی زیادتیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
جنسی زیادتیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ شرم ناک بات یہ ہے کہ بھیڑ میں غیر سماجی عناصر خواتین کی عصمت سے کھیلتے رہتے ہیں اور لوگ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ حیوانیت یہ ہے کہ عصمت دری کرنے والے عورتوں کو ہی نہیں، بلکہ کچھ مہینے کی معصوم بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں اور پھر پکڑے جانے کے خوف سے ان کا قتل کر دیتے ہیں۔ پچھلے ماہ اتر پردیش کے آگرہ ضلع کے گاؤں کک تھلا میں چھ ماہ کی بچی کے ساتھ اسی گاؤں کے ایک شخص نے عصمت دری کی، جس سے اس بچی کی موت ہو گئی۔ عصمت دری کرنے والوں میں غیر ہی نہیں، باپ اور بھائی سے لے کر چچا، ماموں، دادا اور دیگر قریبی رشتہ دار تک شامل ہوتے ہیں۔
عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے معاملے عدالتوں میں نہ پہنچ پانے کی سب سے بڑی وجہ سماجی خوف ہے۔ مردوں کے غلبہ والے سماج نے عورتوں کا ذہنی اور جسمانی استحصال کرنے کے متعدد طریقے ایجاد کیے ہیں۔ اگر کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے یا اس کی آبرو ریزی کرتا ہے تو سماج مرد کو قصوروار مانتے ہوئے اسے سزا دینے کی بجائے عورت کو ہی بدچلن ہونے کا الزام دیتا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی عورت یہ نہیں چاہے گی کہ سماج اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھے۔ عصمت دری کے معاملے میں متاثرہ عورت اور اس کی فیملی کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پہلے تو پولس انہیں برا بھلا کہتے ہوئے معاملہ درج کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور اگر میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے معاملہ درج ہو بھی گیا تو پولس معاملے کو لٹکائے رکھتی ہے۔ ایسے متعدد معاملے سامنے آ چکے ہیں، جب پولس نے عصمت دری کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہوئے متاثرین کے ساتھ ظلم کیا۔ اگر کوئی متاثرہ خاتون ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے، انصاف پانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو اسے وہاں بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ عدالت میں اس خاتون کو بدچلن ثابت کر دیا جاتا ہے اور کمزور قانونی نظام کی وجہ سے ملزم آسانی سے بچ نکلتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق، پولس میں درج ایسے معاملوں میں صرف دو فیصد لوگوں کو ہی سزا ہو پاتی ہے، جب کہ 98 فیصد لوگ باعزت بری ہو جاتے ہیں، مگر عورتوں کو اس کا خمیازہ تا عمر سماج کے طعنے سن کر بھگتنا پڑتا ہے۔ اس سے جہاں ان کی زندگی متاثر ہوتی ہے، وہیں انفرادی ترقی اور سماج میں اہم حصہ داری میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ عصمت دری کے معاملے میں سماج کو بھی اپنا نظریہ بدلنا ہوگا۔ اسے متاثرہ خاتون کے تئیں ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے عصمت دری کرنے والے کو سزا دلانے میں اپنا رول طے کرنا ہوگا۔ عصمت دری کرنے والے کہیں باہر سے نہیں آتے ہیں، وہ اسی سماج کا حصہ ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں پر تمام پابندیاں لگانے کی بجائے اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کریں، انہیں با اخلاق بنائیں، تاکہ وہ سماج میں گندگی نہ پھیلا سکیں۔