Saturday, August 31, 2013

!وہ آزاد کے بعد بھی آزاد نہیں تھے‎


فردوس خان 
ہندوستان  کی کثیر آبادی کے درمیان ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے، جسے آزادی کے طویل عرصہ بعد بھی مجرموں کی طرح پولس تھانوں میں حاضری لگانی پڑتی تھی۔ آخر کار 31اگست، 1952کو اسے اس سے نجات تو مل گئی، لیکن اسے کوئی خاص توجہ حاصل نہیں ہوئی۔نتیجتاًاس کی حالت بدسے بدتر ہوتی چلی گئی۔ اس سماج کے لوگوں کو ملال اس بات کا ہے کہ جہاں ملک کی دیگر برادریوں نے ترقی کی، وہیں وہ مسلسل پسماندہ ہوتے چلے گئے۔ان کے پشتینی دھندے ختم ہوتے چلے گئے اور انہیں سرکاری سہولیات کا بھی مکمل فائدہ نہیں مل پایا۔ قابل غور ہے کہ ملک میں 15اگست بطور جشن آزادی منایا جاتا ہے، لیکن انہی خوشنما لمحوں کے درمیان سماج میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے، جو اس دن کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ گھومنتو برادری کے یہ لوگ 31اگست کو آزادی کا جشن مناتے ہیں۔

آل انڈیا ومکت جاتی مورچہ کے ممبر بھولا کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم یوم آزادی نہیں مناتے، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے لئے15اگست کے بجائے 31اگست کی زیادہ اہمیت ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 15لوگوں کو دن میں تین بار پولس تھانہ میں حاضری لگانی پڑتی تھی۔ اگر کوئی شخص بیمار ہونے یا کسی دوسری وجہ سے تھانہ میں موجود نہیں ہوپاتا تو پولس کے ذریعہ اسے اذیتیں دی جاتیں۔ اتنا ہی نہیں، چوری یا کوئی دیگر مجرمانہ واردات پر بھی پولس کا قہر ان پر ٹوٹتاتھا۔ یہ سلسلہ طویل عرصہ تک چلتا رہا۔ آخر کار عاجز آ کر تشدد کے شکار لوگوں نے اس انتظامی تسلط کے خلاف آواز بلند کی اور پھر شروع ہوا لوگوں میں بیداری لانے کا سلسلہ۔لوگوں کی جدوجہد رنگ لائی اور پھر سال 1952میں انگریزوں کے ذریعہ 1871میں بنائے گئے ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ اسی سال 31اگست کو گھومنتو برادری کے لوگوں کو تھانہ میں حاضری لگانے سے نجات ملی۔

اس وقت ملک میں ومکت برداری کے 192قبیلوں کے تقریباً20کروڑ لوگ ہیں۔ ہریانہ کی تقریباًساڑھے سات فیصد آبادی اسی برادری کی ہے۔ ان ومکت برداریوں میں سانسی، باوریا، بھاٹ، نٹ بھیڑ کٹ اور ککر وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بھاٹ برداری سے تعلق رکھنے والے پربھو بتاتے ہیں کہ 31اگست کے دن قبیلے کے رسم و رواج کے مطابق اجتماعی رقص کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خواتین جمع ہو کر پکوان بناتی ہیں اور اس کے بعد اجتماعی عشائیہ ہوتا ہے۔ بچے بھی اپنے اپنے طریقوں سے خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ کئی قبیلوں میں پتنگ بازی کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جیتنے والے لوگوں کو تقریب کی زینت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ انہیں مبارکباد کے ساتھ ساتھ انعام بھی دیتے ہیں۔ان برادریوں کے لوگوں کے اداروں میں31اگست کو یوم آزادی منایاجاتا ہے۔ ان پروگراموں میں مرکزی وزراء سے لے کر مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان اور سرکاری افسران بھی شرکت کرتے ہیں۔ ان کی تیاریوں کے لئے تنظیم کے عہدیداران گائوں گائوں کا دورہ کر کے لوگوں کو تقریب کے لئے مدعو کرتے ہیں۔

ہریانہ کے علاوہ ملک کی د یگر ریاستوں میں بھی قبائلی سماج کی دیگر برادریاں رہتی ہیں، جن میں آندھرا پردیش میں بھیلی، چینچو، گونڈ، کانڈا، لمباڈی، سنگلی اور نائک ۔ آسام میں بوشے، کچاری مکر یعنی کاربی، لنلگ، راتھا، دماسا، ہمر اور ہجونگ۔بہار اور جھارکھنڈ میں جھمور ،بنجارا، برہور، کوروا، منڈا، اورائو، سنتھال، گونڈ اور کھنڈیا۔ گجرات میں بھیل، ڈھوڈیا،گونڈ،سدی،بورڈیا اور بھیلالا۔ ہماچل پردیش میں گدی،لاہوآلا اور سوانگلا۔ کرناٹک میں بھیل،چینچو، گائوڈ ، کروبا، کمارا، کولی، کوتھا، میاکا اور ٹوڈا۔کیرل میں آدیم، کونڈکپو ،ملیس اور پلیار۔مدھیہ پردیش میں بھیل، برہور ، امر، گونڈ، کھریا،ماجھی، منڈا اور اورائوں۔ چھتیس گڑھ میں پرہی، بھیلالا،بھیلائت، پردھان، راجگونڈ، سہریا، کنور،بھینجوار ،بیگا، کول اور کورکو۔ مہاراشٹر میں بھیل،بھونجیا،ڈھوڈیا،گونڈ، کھریا، نائک،اورائوں،پردھی اور پتھنا۔ میگھالیہ میں گارو، کھاسی اور جینتیا۔اڑیسہ میں جوانگ، کھانڈ ،کرووا،منڈاری، اورائوں، سنتھال،دھاروآ اور نائک، راجستھان میں بھیل، دمور، گرستہ،مینا اور سلریا۔ تمل ناڈو میں ارولر، کمرار ، کونڈکپو،کوٹا، مہملاسر، پلین اور ٹوڈا۔ تریپورہ میں چکما ،گارو، کھاسی، کوکی، لوسائی،لیانگ اور سنتھال۔ مغربی بنگال میں اسور، برہور، کوروا، لیپچا، منڈا، سنتھال اور گونڈ۔ میزورم میںلوسئی،ککی، گارو، کھاسی، جینتیا اور مکٹ۔ گوا میں ٹوڈی اور نائک۔دمن و دیپ میں ڈھوڈی، مکڑ اور ورتی۔ انڈمان میں جاروا، نکوبارمیں،اونجے،سینٹی نیلج،شومپینس اور گریٹ انڈمانی۔ اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں بھاٹی، بکسا، جونساری اور تھارو۔ ناگالینڈ میں ناگا، ککی، مکٹ اور گارو۔ سکم میں بھوٹیا اور لیپچا۔ جموںو کشمیر میں چدمپا، گرا، گور اور گڈی وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے دیگر برادریاں اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔
انڈین نیشنل لوک دل کے ٹپری واس ومکت جاتی مورچہ کے ضلع صدر بہادر سنگھ کا کہنا ہے کہ آزادی کی 6دہائیوںکے بعد بھی قبائلی سماج کی گھومنتو برادریاں ترقی سے کوسوں دور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان برادریوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ انہیں مقامی طور پر آباد کریں۔ ان کے لئے بستیاں بنائی جائیں اور مکان مہیا کرائے جائیں، بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور ایس ٹی کا درجہ دیا جائے، تاکہ انہیں بھی ریزرویشن کا فائدہ مل سکے۔ قبائلی سماج کی بیشتر برادریاں آج بھی بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وزارت دیہی ترقیات کے ایک سروے کے مطابق ان برادریوں کا نصف سے زیادہ حصہ خط افلاس سے نیچے پایا گیا ہے۔ ان کی فی کس آمدنی ملک میں سب سے نیچے رہتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق،درج فہرست قبائل کی 9,17,590 ایکڑ زمین کا تبادلہ کیا گیا اور محض5,37,610ایکڑ زمین ہی انہیں واپس دلائی گئی۔

گھومنتو برادری کی بدحالی کے مختلف اسباب ہیں، جن میں جنگلوںکی تباہ کاری اہم طور پر شامل ہے۔ جنگل ان کی گزر بسر کا واحد وسیلہ ہے، لیکن ختم ہو رہے جنگلاتی وسائل ان کے ایک بڑے حصے کے وجود کو پریشانی میں ڈال رہے ہیں۔ بیداری کا فقدان بھی ان برادریوں کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہواہے۔مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ شروع کئے گئے ترقی سے متعلق مختلف پروگراموں، اسکیموں کے بارے میں گھومنتو برادری کے لوگوں کو جانکاری نہیں ہے، جس سے انہیں ان کا کوئی بھی فائدہ نہیں مل پاتا۔ پانچویں پنج سالہ اسکیم کے تحت ملک بھر میں درج فہرست قبائلیوں کی ترقی کے لئے ٹرائبل سب اسٹریٹجی (ٹی ایس پی) اسکیم بھی تیار کی گئی ہے۔اس کے تحت عموماً درج فہرست قبائلیوں سے بسے مکمل علاقہ کو ان کی آبادی کے حساب سے کئی زمروں میں شامل کیا گیا ہے۔ان زمروںمیں اٹرگریٹیڈ ایریا ڈیولپمنٹ پروجیکٹ (ٹی ڈی پی)،موڈیفائڈ ایریاڈیولپمنٹ ایپروچ (ماڈا)، کلسٹر اور آدم درج فہرست قبائل گروپ شامل ہیں۔ قبائلیوں کی وزارت کے دفتر نے درج فہرست قبائل کی فلاح اور ترقی کے لیے بنائی گئی اسکیموں پر عمل درآمد جاری رکھا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ لاعلمی،بدعنوانی اور لال فیتا شاہی کے سبب مذکورہ برادریاں اسکیموں سے مستفید نہیں ہو پاتی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بیداری مہم چلا کر ان برادریوں کی ترقی کے لئے کارگر اقدامات کیے جائیں، ورنہ حکومت کی فلاحی اسکیمیں کاغذوں پر ہی سمٹ کر رہ جائیں گی۔

Sunday, July 28, 2013

خواتین ریزرویشن بل : مرد ممبران پارلیمنٹ کو اعتراض کیوں‎


فردوس خان
گزشتہ سال دہلی میں اجتماعی عصمت دری کے واقعہ کے بعد ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کی آواز پھر سے بلند ہونے لگی ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرد، عورت کو ہمیشہ دوسرے درجے اور حاشیے پر رکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے آج تک خواتین ریزرویشن بل پاس نہیں ہو پایا ہے۔ دراصل اس بل کی راہ میں مرد کی وہی ذہنیت حائل ہے، جو عورتوں کو صرف گھر کی چہار دیواری میں قید رکھنا چاہتی ہے۔ آخر کیوں ہے مردممبران پارلیمنٹ کو اعتراض؟ پڑھئے چوتھی دنیا کی یہ خصوصی رپورٹ۔

خواتین کو بااختیار بنانے کے تمام دعووں کے باوجود خواتین ریزرویشن بل گزشتہ ڈیڑھ سال سے بھی زیادہ مدت سے لوک سبھا میں زیر التوا ہے، کیونکہ زیادہ تر مرد ممبران پارلیمنٹ نہیں چاہتے کہ خواتین سیاست میں آئیں۔ انھیں ڈرہے کہ اگر ان کی سیٹ خاتون کے لئے ریزرو ہو گئی تواس صورت میں وہ الیکشن کہاں سے لڑیں گے۔ دراصل، کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ اپنا انتخابی حلقہ نہیں چھوڑنا چاہتا۔ حالانکہ خواتین ریزرویشن بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتیں دلت، پسماندہ اور اقلیتوں کے نام پر اپنا مفاد ثابت کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لئے انھوں نے بہانہ بھی تلاش کر لیا ہے۔ یہ جگ ظاہر ہے کہ دلتوں ، پسماندوں، اقلیتوں اور غریب خواتین کے حق کی بات کرنے والی سیاسی جماعتیں الیکشن کے دوران ٹکٹ کے بٹوارے میں پیسہ ، اثرو رسوخ اور اقرباپروری کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔ وہ جن عورتوں کو اپنی ا میدوار بناتی ہیں، ان میں سے زیادہ ترعورتیں سیاسی پریواروں سے ہی ہوتی ہیں۔ ایسے میں دلت، پسماندہ، اقلیت اور غریب خواتین حاشیے پر چلی جاتی ہیں۔ کچھ پارٹیوں کو یہ بھی فکر ہوتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جیتنے والی خاتون امیدوار کہاں سے لائیں گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امیدوار نہ ملنے پر سیاستداں اپنے خاندان اور رشتے داروں کی خواتین کو ہی انتخابی میدان میں اتارتے ہیں۔

لوک سبھا میں حزب اختلاف کی لیڈر سشما سوراج خواتین ریزرویشن بل کو لے کر فکر مند دکھائی دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانا آج وقت کی مانگ ہے، اس لئے خواتین ریزرویشن بل منظور ہونا چاہئے۔ وہ کہتی ہیں کہ بی جے پی ہمیشہ اس بل کی حمایت میں رہی ہے اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی این ڈی اے سرکارکے دوران پارٹی نے اسے منظور کرانے کی پوری طرح کوشش کی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت دیگر پارٹیوں سے حمایت حاصل نہیں ہو پائی۔

دراصل ملک کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کو ریزرویشن دینے والے بل کو لیکر سیاسی جماعتیں آمنے سامنے ہیں۔ جہاں ایک طرف برسر اقتدار کانگریس سمیت بی جے پی اور بائیں بازو کی جماعتیںبل کی حمایت کر رہی ہیں، وہیں راشٹریہ جنتادل، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور لوک جن شکتی پارٹی نے اس بل کی موجودہ شکل کی اس لئے مخالفت کی ہے کیونکہ وہ سماج کے پسماندہ طبقوں کے لئے ریزرویشن میں ریزرویشن چاہتی ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس بل کوراجیہ سبھا کی منظوری ملنے کے باوجود کارروائی آگے نہیں بڑھ پائی ہے۔ یہ بل لوک سبھا میں زیر التوا ہے۔ حالانکہ ایک بار پھر بین الا قوامی یوم خواتین کے موقع پر راجیہ سبھا کے ممبران نے اتفاق رائے سے خواتین ریزرویشن بل کو پاس کرنے کی اپیل کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ خواتین ریزرویشن بل کئی بار پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ یہ بل سب سے پہلے ایچ ڈی دیوگوڑا کی وزارت عظمیٰ کی مدت کار میں 1996میں لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا۔ اس پر کافی ہنگامہ ہوا۔ پھر 1998میں جب اس وقت کے وزیر قانون تمبی درے بل پیش کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان کے ہاتھ سے بل کی کاپی لیکر پھاڑ دی گئی۔ اس کے بعد 6مئی 2008کو اسے راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا، جہاں اسے لیگل سسٹم اور پرسنل میٹر کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو سونپا گیا۔ سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کے باوجود پارلیمانی کمیٹی نے اسے اصل شکل میں ہی پاس کرانے کی سفارش کی۔ اس بل کے معاملے میں مرکزی سرکار کو 9 مارچ 2010کو اس وقت ایک بڑی کامیابی ملی، جب اس کے لئے لائے گئے108ویںآئین ترمیم بل کو راجیہ سبھا کی منظوری مل گئی۔

سیاست میں خواتین کو مناسب نمائندگی دلانے کے لئے خواتین ریزرویشن بل کا پاس ہونا بے حد ضروری ہے۔ خواتین ریزرویشن بل میں لوک سبھا اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں خواتین کے لئے 33فی صد سیٹیں ریزرو کرنے کا اہتمام ہے۔ خواتین ریزرویشن نافذ ہونے کے 15 سال بعد یہ ریزرویشن ختم ہو جائے گااور اسے آگے جاری رکھنے کے بارے میں جائزہ لیا جائے گا۔ دنیا کے تقریباً سو ممالک میں خواتین کوسیاست میںمناسب نمائندگی دینے کے لئے ریزرویشن کا قانون ہے۔ ریزرویشن کا فیصد سبھی ممالک میں الگ الگ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایشیائی ملکوں میں خواتین کو مناسب نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ ان ملکوں کا اوسط تناسب18.5فیصد ہے، جو کہ کافی کم ہے۔ اس معاملے میں سری لنکا کی حالت بیحد خراب ہے، وہاں یہ شرح محض 6فیصد ہے۔ مغربی ممالک کی خواتین سیاست میں بہت آگے ہیں۔ روانڈا کی پارلیمنٹ میں 56فیصدخواتین ہیں۔ یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد سویڈن کا نام آتا ہے، جہاں یہ شرح 47فیصد ہے۔ جنوبی افریقہ میں 45فیصد، آئس لینڈ میں43فیصد، ارجنٹنا میں 42فیصد، نیدر لینڈمیں41فیصد، ناروے اور سینیگل میں40فیصد، ڈنمارک میں38 فیصد، انگولا اور کوسٹاریکا میں37فیصدخواتین پارلیمنٹ میں ہیں۔ ہندوستان میں یہ شرح محض 11فیصد ہی ہے۔ حالانکہ 1995سے 2012کے درمیان سیاست میں خواتین کی تعداد 75فیصد بڑھی ہے، لیکن ہندوستان میں حالت اچھی نہیں ہے۔ 1991سے 2012کے درمیان خاتون نمائندوں کی تعداد 9.7فیصد سے 10.96فیصد ہی بڑھی ہے۔ 1957 میں لوک سبھا میں)22 48.9فیصد)خواتین جیت کر آئی تھیں۔ 1962میں47)31 فیصد)، 1967میں29(43.3فیصد)، 1971میں21 24.4) فیصد)، 1977میں19(27.1 فیصد)، 1980میں 28 (19.6فیصد )، 1984میں 42(25.2فیصد )، 1989میں 29(14.7فیصد )، 1991میں37(11.4فصد )، 1996میں 40(6.7فیصد)، 1998میں 43(15.7فیصد )، 1999میں 49(17.3فیصد)، 2004میں 45(12.7فیصد )اور 2009میں 49 (10.6فیصد ) خواتین لوک سبھا کی ممبر بنیں۔

خواتین ریزرویشن بل کی مخالفت کے لئے سیاستداں طرح طرح کی دلیلیں دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس بل سے غریب اور دیہات میں رہنے والی خواتین کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ جنتادل (یونائٹیڈ) کے صدر شرد یادو نے بل کے ضابطوں پر اعتراض جتاتے ہوئے کہا کہ اس بل سے صرف پَر کَٹی عورتوں کو فائدہ پہنچے گا، جبکہ سماجوادی پارٹی کے صدر ملائم سنگھ یادو کا کہنا ہے کہ اگر مرکز ی سرکار خواتین ریزرویشن بل میں ترمیم کرکے دلت، پسماندہ طبقہ اور مسلم سماج کی خواتین کے لئے ریزرویشن کی بات کرے، تو ان کی پارٹی اسے حمایت دینے پر غور کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سماجوادی پارٹی ، خواتین ریزرویشن کے خلاف نہیں ہے، لیکن یہ بل اگر موجودہ شکل میں پاس ہوتا ہے، تو ٖغریب اور دیہاتی خواتین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لئے ان کی پارٹی یہ چاہتی ہے کہ خواتین ریزرویشن بل میں دلت، پسماند ہ طبقے اور مسلم سماج کی خواتین کے لئے ریزرویشن کا انتظام کیا جائے۔ اسی طرح راشٹریہ جنتادل کے صدر لالو یادو کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی ریزرویشن کے خلاف نہیں ہے، لیکن وہ چاہتے ہیںکہ اس بل میں پچھڑی، دلت اور مسلم خواتین کو ریزرویشن ملے۔ سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی بھی اپنے شوہر کی طرز پر خواتین ریزرویشن کے کوٹے کے اندر کوٹے کا مطالبہ کر تی ہیں، یعنی وہ درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور پسماندہ طبقے کی خواتین کو بھی ریزرویشن میں شامل کرنے کی بات کہتی ہیں۔ ان پارٹیوں کی مخالفت کی حالت یہ ہے کہ مارچ 2010میں جب بھاری ہنگامے اور شور شرابے کے درمیان سرکار کی طرف سے اس وقت کے وزیر قانون ویرپا موئلی نے جیسے ہی ایوان میںخواتین ریزرویشن بل رکھا، تبھی بل کی مخالفت کر رہے جنتادل(آر جے ڈی ) اور سماجوادی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ چیئر مین حامد انصاری کی نشست تک پہنچ گئے۔ آر جے ڈی کے ممبر پارلیمنٹ سبھاش یادو، راجنیتی سنگھ اور سماجوادی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ کمال اختر نے حامد انصاری سے چھینا جھپٹی کرتے ہوئے، بل کی کاپیاں چھین لیں اور انھیں پھاڑکر ایوان میں لہرادیا۔ یہ مخالفت یہیں تک ہی محدود نہیںرہی، بلکہ ملائم سنگھ یادو اور لا لو پرساد یادو نے یو پی اے سرکار سے حمایت واپس لینے کا اعلان تک کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس بل کے پاس نہ ہونے کے پس پردہ مردکی مردانہ ذہنیت کام کر رہی ہے، کیونکہ جب سے انسان نے روئے زمین پر قدم رکھا ہے، تبھی سے انسانی سماج دو گروپوں میں منقسم رہا ہے۔ پہلا گروپ مردوں کا ہے اور دوسرا عورتوں کا۔ چونکہ عورتیں جسمانی طور پر مردوں کے مقابلے کمزور ہوتی ہیں، اس لئے مردسماج نے عورت کو دوسرے درجے پر رکھا۔ عورتوں کے ساتھ شروع سے ہی امتیاز برتا جاتارہا ہے۔چاہے معاملہ مذہب کا ہو، سیاست کا ہو یا پھر کسی اور شعبے کا، ہر جگہ عورت کو کمتر تصور کیا گیا۔ ملک کی جنگ ِ آزادی کے دوران بابائے قوم مہاتما گاندھی نے خواتین کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ گھر کی چہار دیواری سے باہر آکر انگریزوں سے لوہا لیں۔ انھوں نے عورتوں کو جھانسی کی رانی کی مثال دی، جنھوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی اور میدانِ جنگ میں فرنگیوں کو بتادیاکہ ہندوستان کی عورتیں صرف چوڑیاں ہی نہیں پہنتی ہیں، بلکہ وقت آنے پر تلوار بھی اٹھا لیتی ہیں۔ نتیجہ کے طور پر عورتوں نے ملک کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آزادی کے بعد عورتیںسیاست میں بھی آئیں، لیکن ان کی تعداد محض برائے نام رہی۔ عورتوں کو سیاست میں مناسب مقام دینے کے لئے ریزرویشن کا مطالبہ کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں 1993میں 73ویں 74ویں آئینی ترمیم کی گئی۔ اس کے تحت میونسپل کارپوریشن اور پنچایتوں کو آئینی درجہ دینے کے ساتھ ہی ان میں عورتوں کے لئے 33فیصد ریزرویشن دینے کاجواز ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ آئین میں لوک سبھا اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے لئے، ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق ریزرویشن کا بندوبست ہے، لیکن ان میں عورتوں کے لئے مقام محفوظ کرنے کا کوئی قانون نہیں ہے اور اسی سبب اس سہولت کا فائدہ صرف مرد ہی اٹھا رہے ہیں۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایا وتی خود عورت ہوتے ہوئے بھی اس بل کی مخالفت کر رہی ہیں۔ حالانکہ انھوں نے مجوزہ بل میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی عورتوں کی ہر شعبے میں بھر پور حصہ داری کے لئے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے مجوزہ 33فیصد ریزرویشن میں سے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی عورتوں کے لئے الگ سے ریزرویشن کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس بابت انھوں نے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ایک خط بھی لکھا ہے کہ ملک میں سبھی طبقوں کی عورتیں خاص طور سے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی عورتیں مالی ، سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پچھڑی ہوئی ہیں اور یہ عورتیں میدانِ سیاست میں تو اور بھی پچھڑی ہوئی ہیں۔ سیاست میں عورتوں کو نمائندگی دلانے کا مطالبہ پچھلے کافی عرصے سے ہو رہا ہے۔ 1974میں عورتوں کی صورتحال کے لئے تشکیل کی گئی ایک کمیٹی نے سیاسی اداروں میں ان کے لئے جگہ محفوظ کرنے کی سفارش کی تھی۔ اسی طرح 1988میں نیشنل پرسپیکٹو پلان میں پنچایتوں، شہری اداروں اور سیاسی جماعتوں میں عورتوں کے لئے 30فیصد ریزرویشن کی سفارش کی گئی تھی۔ اس کے بعد 2001میں خواتین کو بااختیار بنانے کی قومی حکمت عملی کے تحت لوک سبھا اور اسمبلیوں میں عورتوں کو ریزرویشن دینے کی وکالت کی گئی۔

خواتین کے ریزرویشن کو لے کر سیاست بھی خوب جم کو ہوتی رہی ہے۔ یو پی اے نے پچھلے چناؤ میں خواتین کے ریزرویشن کو اپنے منشور میں شامل کرتے ہوئے عورتوں کے استحکام کے تئیں اپنے عزم کو دہرایا۔ یوپی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ خواتین ریزرویشن بل پاس ہو جاتا ہے تو سمجھئے راجیو گاندھی کا عورتوں کے سیاسی استحکام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو جائے گا۔ کانگریسی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر امبیکا سونی کہتی ہیں کہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوںمیں عورتوں کے لئے ریزرویشن بیحد ضروری ہے۔

دراصل اس خواتین ریزرویشن بل کی شروع سے ہی مخالفت کی گئی۔ حالانکہ برسر اقتدار کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ ہی دیگر علاقائی پارٹیاں جیسے تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) ، دروڑ مُنیتر کشگم(ڈی ایم کے) ، آل انڈیا دروڑ منیتر کشگم(اے آئی ڈی ایم کے)، اکالی دل اور نیشل کانفرنس اس کی حمایت کر رہی ہیں، لیکن کانگریس اور بی جے پی کے ممبروں میں اس مدعے پر عام رائے نہیں دکھائی دے رہی ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی کے اعلیٰ لیڈر یہ جانتے ہیں کہ ان کے بہت سے ممبران پارلیمنٹ خواتین ریزرویشن بل کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ راجیہ سبھا میں دونوں پارٹیوںکو وہپ جاری کرکے اپنے ممبران پارلیمنٹ کو ووٹ دینے کے لئے مجبور کرنا پڑا۔ واضح ہو کہ وہپ تبھی جاری کیا جاتا ہے، جب ممبران پارلیمنٹ یا ممبران اسمبلی کے پارٹی کے خلاف جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایک کمیونسٹ پارٹی ہی ایسی ہے، جس کی اس بل کو پوری طرح سے حمایت حاصل ہے، کیونکہ کمیونسٹ ممبران پارلیمنٹ ، پارٹی کی آئیڈیالوجی پرہی چلنے میں یقین رکھتے ہیں۔ مارکسوادی لیڈر ورندا کرات خواتین ریزرویشن بل کی حمایت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس کے پاس ہونے سے ملک کی جمہوریت اور مضبوط ہوگی۔

بہر حال جس طرح بڑی سیاسی جماعتیں بل کی موجودہ شکل کی مخالفت کر رہی ہیں، اس کے مدنظر لوک سبھا میں اس کا پاس ہونا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں دلتوں،پچھڑوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تئیں اتنی ہی سنجیدہ ہیں، تو انھیں اس بل کو پاس کرانا چاہئے۔ اس کے بعد وہ اپنی سطح پر ان طبقوں کو ٹکٹ دے کر سیاست میں آگے لاسکتے ہیں۔ مگر یہ جماعتیں ایسا نہیں کریں گی، کیونکہ ان کا اصل مقصد ان طبقوں کی فلاح و بہبود نہیں، بلکہ عورتوں کو آگے آنے سے روکنا ہے۔

Wednesday, May 22, 2013

زخم ابھی تازہ ہیں، ٹیس ابھی باقی ہے...


فردوس خان
وقت  بدلا، حالات بدلے، لیکن نہیں بدلیں تو زندگی کی دشواریاں، آنسوئوں کا سیلاب نہیں تھما، اپنوں کے گھر لوٹنے کے انتظار میں پتھرائی آنکھوں کی پلکیں نہیں جھپکیں، اپنوں سے بچھڑنے کی تکلیف سے بے حال دل کو قرار نہ ملا۔ یہی ہے میرٹھ فساد متاثرین کی داستان۔میرٹھ کے ہاشم پورہ میں 22مئی 1987اور ملیانہ گائوں میں23مئی 1987کو حیوانیت کا جو ننگا ناچ ہوا، اس کے نشان آج بھی یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان فسادوں نے یہاں کے باشندوں کی زندگی کو پوری طرح تباہ کر دیا۔ عورتوں کو بیوہ بنا دیا، بچوں کے سر سے باپ کا سایہ ہمیشہ کے لیے اٹھ گیا۔ کئی گھروں کے چراغ بجھ گئے۔ فسادیوں نے گھروں میں آگ لگا دی، لوگوں کو زندہ جلا دیا، عورتوں کو تلوار وںسے کاٹا گیا، معصوم بچوں کو بھی آگ کے حوالہ کر دیا گیا۔عالم یہ تھا کہ لوگوں کو دفنانے کے لیے جگہ کم پڑ گئی۔ یہاں کے قبرستان کی ایک ایک قبر میں تین تین لوگوں کو دفنایا گیا۔یہاں مرنے والے زیادہ ماتم کرنے والے کم تھے، جو زندہ تھے، وہ بھی زندہ لاش بن کر رہ گئے۔ برسوں تک کانوں میں اپنوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں گونجتی رہیں۔ انسانوں سے آباد ایک پوری بستی شمشان میں تبدیل ہو چکی تھی، جہاں صرف آگزنی اور تباہی کا ہی منظر تھا۔

ملیانہ کے محمد یونس اپنے بھائی محمود کا کھنڈر ہو چکا مکان دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کبھی یہاں ایک خوشحال خاندا ن رہتا تھا، گھر میں بچوں کی کلکاریاں گونجتی تھیں، لیکن آج یہ پوری طرح ویران ہے۔23مئی کو فسادیوں نے اس گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اس آگ میں ان کے بھائی محمود، بھابھی نسیم اور چار بچے عارف، وارث، آفتاب اور مسکان جل کر مر گئے۔جب مکان سے لاشیں نکالی گئیں تو ان کے بھائی اور بھابھی نے اپنے بچوں کو سینہ سے لگایا ہوا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر ان کی روح تک کانپ اٹھی۔بعد میں ان لاشوں کو ایسے ہی دفنا دیا گیا۔ اس حادثہ میں ان کی بھتیجی تبسم بچ گئی ، جو اس وقت اپنی نانی کے گھر گئی ہوئی تھی۔

بیٹے دلشاد کا نام آتے ہی علی حسن کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت دلشاد کی عمر آٹھ سال تھی۔ فسادیوں نے پہلے تو پیر پکڑ کر اسے زمین پر پٹخ پٹخ کر مارا ، پھر اس کے بعد جلتے ہوئے رکشہ پر پھینک دیا۔ وہ زندہ جل کر مر گیا۔ فسادیوں نے اس کے گھر کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے بجھا دیا۔ معراج نے بتایا کہ فسادیوں نے ان کے والد محمد اشرف کی گردن میں گولی ماری اور انھوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔یہیں کے یامین بتاتے ہیں کہ فسادیوں نے ان کے والد محمد اکبر کو پہلے تو بری طرح پیٹا اور پھر بعد میں انہیں زندہ جلادیا تھا۔
محمودن بتاتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے گھر میں آ گ لگا دی تھی، جس میں ان کے سسر عبد الرشید اور ساس عیدیہ کی جل کر موت ہو گئی تھی۔ آگ اتنی ہولناک تھی کہ ان کے ساس سسر کی لاشیں تک نہیں مل پائیں۔ ان کے شوہر نواب اپنے بھائی صابر، مظفر کے ساتھ کسی دوسرے گھر میں گئے ہوئے تھے۔ وہ اپنی نندوں شبانہ اور بانو اور بچوں رئیس الدین ، رئیسہ اور شہاب الدین کو لے کر پہلے ہی گھر سے نکل کر وہاں آ چکی تھیں، جہاں گائوں کے لوگ جمع تھے۔یہاں انھوں نے کئی دنوںتک فاقے کیے۔ اس حادثہ کے بعد وہ مع کنبہ اپنے مائکہ شید پور چلی گئیں۔ کچھ وقت بعدان کے شوہر ملیانہ آئے اور ایک عدد چھت کا بندوبست کیا۔

رضیہ بتاتی ہیں کہ اس وقت ان کی شادی ہوئی تھی۔ گھر میں اچھی خاصی رونق تھی، لیکن فسادیوں نے اس خوشی کو ماتم میں بدل دیا۔ فسادیوں نے پہلے تو گھر میں لوٹ مار کی، پھر آگ لگا دی۔ ان کے سسر اللہ راضی کو بری طرح پیٹا گیا۔ شکیلہ روتے ہوئے کہتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے شوہر اشرف کو گولی مار کر ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے تباہ کر ڈالی۔ اگر فسادیوں نے انہیں بھی مار دیا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ جنت بتاتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے گھر میں بھی آگ لگا دی تھی، کسی طرح انھوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ آٹھ دنوں کے بعد جب ان کا پریوار گھر لوٹا تو دیکھا کہ راکھ اب بھی گرم تھی۔فسادیوں کے قہر کی انتہا تو تب ہو گئی جب فسادیوں نے حاملہ کنیز کو تلوار سے کاٹ ڈالا ۔ اسی طرح شہانہ کے پیٹ کو بھی تلوار سے کاٹ دیا۔ اس کی آنتیں باہر آ گئیں اور وہ اپنی آنتوں کو ہاتھ میں لے کر بدحواس دوڑ پڑی۔اس حادثہ کے بعد اس نے گائوں ہی چھوڑ دیا۔بھورا کی بھانجی کے پیر میںگولی ماری گئی۔

بجلی کے سامان کی مرمت کرنے والے حشمت علی اپنے زخم دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پی اے سی کے جوانوں نے ان کے گھر کی تلاشی لی تھی اور اس میںانہیں پیچ کس ملا ۔ اس پر انہیں بے رحمی سے پیٹا گیا۔ ان کی ٹانگ توڑ دی گئی۔ وکیل احمد کے جسم پر بھی گولیوں کے نشان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پیٹ پر دو گولیاں ماری گئیں، جس سے ان کی ایک کڈنی خراب ہو گئی۔ محمد رضا بتاتے ہیں کہ پی اے سی کے جوانوں نے ایک گولی سے دو لوگوں کا قتل کیا۔نصیر احمد کے سر میں گولی ماری گئی ، جو ان کے پیچھے کھڑے ایک دوسرے آدمی کی گردن میں لگ  گئی اور دونوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔نوشاد بتاتے ہیں کہ اس وقت وہ چھوٹے تھے۔ فسادیوں کا قہر دیکھ کر ان کا دل دہل اٹھا تھا۔ وہ دہشت آج بھی ان کے دل پر طاری ہے۔ آج بھی جب ان فسادات کا ذکر آتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کل کا ہی واقعہ ہو۔

ہاشم پور ہ کی نسیم بانو کا کہنا ہے کہ ان کا ایک ہی بھائی تھا سراج احمد۔پی اے سی کے جوان اسے بھی اٹھا کر لے گئے اور گنگا نہر کے کنارے اسے گولی مار کر ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔ گھر کے چشم و چراغ کی موت کے بعد ان کے والد شبیر احمد بری طرح ٹوٹ گئے اور اس کی والدہ کی دماغی حالت خراب ہو گئی۔ اس دلسوز حادثہ کے 10سال بعد ان کی موت ہو گئی، لیکن آخری سانس تک انھوں نے اپنے بیٹے کا انتظار کیا۔ انہیں اس بات پر کبھی یقین ہی نہیں آیا کہ اب ان کا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہے۔ا ن کی دو بہنیں اپنی سسرال میں ہیں، جب کہ وہ اور ان کی ایک بہن فاطمہ طلاق شدہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بھائی کی موت نے پورے خاندان کو منتشر کر کے رکھ دیا۔ آج ان کا بھائی زندہ ہوتا تو ان کی زندگی ہی کچھ اور ہوتی۔ ہاجرہ کے بیٹے نعیم اور پیرو کے بیٹے نظام الدین کو بھی پی اے سی کے جوان اٹھا کر لے گئے تھے اور انہیں بھی گولی مار کر نہر میں پھینک دیا تھا۔زرینہ تو آج بھی اس خوفناک منظر کو یاد کرکے کانپ اٹھتی ہیں، جب پی اے سی اہلکار ان کے شوہر ظہیر احمد اور بیٹے جاوید اختر کو گھر سے گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے، بعد میں دونوں کی موت کی خبر ہی ملی۔ امینہ کے شوہر زین الدین اور دو بیٹوں جمشید احمد اور شمشاد احمد کو بھی پی اے سی کے جوان جبراً گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے۔ ان کے بیٹوں کو گولی مار کر نہر کے حوالہ کر دیا گیا اور شوہر کو جیل بھیج دیا گیا۔ سوا مہینہ بعد زین الدین گھر لوٹے تو ان کے زخم پولس کی حیوانیت کو بیان کر رہے تھے۔ان پر اس قدر ظلم کیے گئے کہ ان کے ہاتھ پیر ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گئے۔ اب وہ معذوروں کی زندگی جی رہے ہیں۔ امینہ بھی بیٹوں کے غم میں اس قدر غمزدہ ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر چل تک نہیں پاتیں۔ رفیقن بتاتی ہیں کہ پی اے سی نے ان کے شوہر حطیم الدین کو بری طرح پیٹا اور بیٹے علاء الدین کو نہر کنارے لے جا کر گولی مار دی اور اس کی لاش بھی ندی میں پھینک دی۔

عورتیں ہی نہیں، بزرگ بھی اپنی اولادوں کو یاد کر کے خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ جمال الدین کے بیٹے قمر الدین کو بھی دو گولیاں ماری گئیں۔پہلے وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر قینچیوں کا کارخانہ چلاتے تھے۔ ان کا بیٹا ہی نہیں، بلکہ کاروبار بھی فساد کی نذر ہو گئے۔ اب وہ ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان کے سہارے دو وقت کی روٹی جٹا پا رہے ہیں۔ شاہد انصاری کے والد الٰہی انصاری بھی میرٹھ فسادات میں مارے گئے اور وہ یتیم ہو گئے۔ موت کے منھ سے بچ کر آئے ذوالفقار بتاتے ہیں کہ پی اے سی نے انہیں بھی گولی مار کر نہر میں پھینک دیا تھا، لیکن وہ کسی طرح بچ کر آ گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پی اے سی کے چنگل سے  بچے لوگوں کے ہاتھ پیڑ توڑ دیے گئے۔وہ کھانے کمانے کے لائق نہیں رہے۔ محمد یامین بتاتے ہیں کہ ان سے پی اے سی  کے اہلکاروں نے پوچھا کہ کہاں رہتے ہو تو علاقہ کا نام بتاتے ہی انہیں لے جا کر جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔عبد الحمید کا سر بھی پھوڑ دیا گیا۔ان کے زخموں کے نشان آج بھی ان کے درد کو بیاں کر رہے ہیں۔ شکیل کا کہنا ہے کہ جب پی اے سی کے جوان اس کے بھائی نعیم کو اٹھا کر لے جا رہے تھے، تب وہ ان کے پیروں سے لپٹ گیا، لیکن ایک معصوم بچے کے آنسو بھی انہیں روک نہیں پائے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس حادثہ کے بعد علاقہ میں صرف عورتیں اور بچے ہی بچے تھے۔ کئی کئی دنوں تک انہیں روٹی کا ایک نوالہ تک نصیب نہیں ہوتا تھا۔ بچے اسی آس میں دن بھر سڑک کے چکر لگاتے تھے کہ کہیں سے کوئی گاڑی آئے اور انہیں راشن دے دے۔ انتظامیہ کی امداد بھی برائے نام تھی۔ کبھی کبھار ہی سرکاری نمائندے آتے اور انہیں دال چاول اور آٹا دے جاتے تھے۔ اس کے سہارے بھلا کتنے دن پیٹ بھر پاتا۔

Monday, May 06, 2013

!ویلفیئر پارٹی آف انڈیا : مسلمانوں کی توقعات پر کتنی کھری اترے گی‎


فردوس خان 
ایک نئی پارٹی بنی ہے۔ اس پارٹی کی افتتاحی تقریب میں ایک عیسائی پادری نے گائتری منتر پڑھا تو تعجب ہوا، کیوں کہ اس پارٹی کیبنیاد میں جماعت اسلامی ہے، جس کے بارے میں لوگ یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک کٹر مسلم تنظیم ہے۔ یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کے بارے میں کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں سوچتی ہے، صرف نعرے ہی دیتی ہے۔ ہندوستانی سیاست میں موقع پرستی کے درمیان یہ مسلمانوں کی ضرورت بن گئی تھی کہ ایک ایسی سیاسی جماعت ہو جو مسلمانوں کے درد سمجھے، ان کے چیلنجز کو جانے، مسلم نوجوانوں کے روزگار کے لیے لڑے، ان کے سوالوں کو پارلیمنٹ میں اٹھائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی کی ویلفیئر پارٹی مسلمانوں کی اس ضرورت کو پورا کرپائے گی؟

جمہوریت کے پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعتوں کا سب سے اہم رول ہوتا ہے۔ ملک میں تقریباً 1200 سیاسی جماعتیں ہیں، ان میں سے 6 نیشنل پارٹی، 44 صوبائی پارٹی اور 1152 مقامی پارٹیاں ہیں۔ حال ہی میں بابا رام دیو نے بھی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ہندوستان کی سیاست میں ایک اور پارٹی نے جنم لیا ہے۔ یہ پارٹی اس لیے اہمیت کی حامل ہے کیوںکہ یہ ملک کی مسلم تنظیم جماعت اسلامی ہند کی پارٹی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس پارٹی کا نام ’’ویلفیئر پارٹی آف انڈیا‘‘رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کو سیاسی جماعت بنانے کی کیا ضرورت پڑی؟ اس پارٹی کی آئیڈیالوجی کیا ہے؟ کیا یہ پارٹی صرف مسلمانوں کی پارٹی ہے؟ کیا یہ پارٹی صرف مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گی؟ کیا یہ انتخاب لڑے گی؟ کن کن پارٹیوں سے یہ اتحاد قائم کرسکتی ہے؟ اس پارٹی کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی ویژن کیا ہیں؟ اس پارٹی سے کن پارٹیوں کو فائدہ ہوگا اور کن پارٹیوں کو نقصان ہوگا؟ ایسے کئی سوال ہیں، جن کے بارے میں ملک کے عوام اور خاص طور سے مسلمانوں کو جاننا ضروری ہے۔

جماعت اسلامی کا قیام 26 اگست 1941کو لاہور میں ہوا تھا۔ ملک کی تقسیم کے بعد جماعت اسلامی بھی تقسیم ہوگئی۔ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بنگلہ دیش میںبھی جماعت اسلامی ہے۔ سیاست میں حصہ بھی لیتی ہے۔ ہندوستان میں جماعت اسلامی پر حکومت نے دو بار پابندی لگائی ہے۔ پہلی بار ایمرجنسی کے دوران اور دوسری بار 1992 میں۔ پہلی بار ایمرجنسی کے ختم ہوتے ہی پابندی ہٹ گئی اور دوسری بار سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹائی۔ سپریم کورٹ نے اس وقت یہ کہا تھا کہ جماعت اسلامی ایک سیاسی، سیکولر اور مذہبی تنظیم ہے۔ ملک میں جماعت اسلامی کے لاکھوں حامی ہیں۔ اس کے 10 لاکھ سے زیادہ ممبران ہیں۔ مانا یہ جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کے ممبران کافی اصول پسند اور ایماندار ہیں۔ یہ ملک میں فلاح و بہبود کی کئی اسکیمیں چلاتی ہے۔ جماعت اسلامی کا خواتین مورچہ بھی ہے، جو آندھراپردیش اور کیرالہ میں کافی سرگرم ہے۔ جماعت اسلامی کی ایک برانچ ہے ہیومن ویلفیئر ٹرسٹ ،جو کئی این جی او کے بیچ کوآرڈینیٹ کرتی ہے۔ جماعت سے وابستہ این جی او، سماجی فلاح اور انسانی حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا اس کی اسٹوڈنٹ ونگ ہے،یوں تو یہ پورے ملک میں ہے لیکن آندھراپردیش اور کیرالہ میں زیادہ سرگرم ہے۔ جماعت اسلامی ہند مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ نئی پارٹی کے اعلان کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پارٹی کی آئیڈیا لوجی کیا ہے؟ کیا یہ صرف مسلمانوں کے مسائل کو اٹھائے گی یا پھر مسلمانوں کو قومی ایشو سے جوڑے گی؟ جماعت اسلامی کی آئیڈیالوجی کے لیے اس کے 2006 کے دستاویز ویژن 2016 کا جاننا ضروری ہے۔ جماعت نے 550 کروڑ روپے کے بجٹ سے غریب مسلمانوں کی تعلیم، صحت اور گھر کے لیے ایک ایکشن پلان تیار کیا تھا۔ اس پلان کے تحت 58 پسماندہ اضلاع کو منتخب کیا گیا۔ ان اضلاع میں اسکول، ہاسپیٹل، ووکیشنل ٹریننگ سینٹر، اسمال اسکیل انڈسٹری اورسستے مکانوں کے لیے قرض دینے کی سہولت ہے۔ جماعت اسلامی کی آئیڈیا لوجی بازاری پن، گلوبلائزیشن اور لبرل ازم کے خلاف ہے۔ یہ غیرملکی سرمایہ، سیج، صحت، تعلیم اور دوسری خدمات، زراعت میں سبسڈی کے ختم کیے جانے کی سرکاری پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہے۔ جماعت کا ماننا ہے کہ ملک کے لوگوں کو ہر قسم کی سہولت دینا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ جماعت اسلامی ہر قسم کی دہشت گردی کی بھی مخالفت کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کی خارجہ پالیسی امریکہ مخالف ہے۔ جماعت اسلامی الیکشن میں سرگرم کردار ادا کرتی ہے۔ الگ الگ صوبوں میں یہ الیکشن کے دوران حکمت عملی بناتی ہے۔ کس پارٹی کو حمایت دینی ہے، یہ جماعت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتی ہے۔ اس بار کے اسمبلی انتخابات میں کیرالہ میںماکپاکے لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کو جماعت کی کھلی حمایت ملی ہے۔ جماعت اب تک کے انتخابات میں سیکولر پارٹیوں کوحمایت دیتی رہی ہے۔ جب کہ اس پر بی جے پی کو حمایت دینے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کا سیاسی رشتہ کوئی نیا نہیں ہے۔ پہلے یہ ایک پریشر گروپ کی طرح کام کرتی تھی، اب سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے الیکشن نہیں لڑتی تھی، اب الیکشن لڑ ے گی تو اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جماعت اسلامی کے لیڈران کو الیکشن لڑنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس سوال پرجماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ آزاد ملک میں مسلمان خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتے ہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت نے ان کی کبھی خیر خبر نہیں لی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسی سیاسی پارٹی بنے جو مسلمانوں کے لیے ایمانداری سے کام کرے۔ جماعت کے سینئررکن ا ور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر مجتبیٰ فاروق کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی بدتر حالت کو دیکھتے ہوئے جماعت کو پہلے ہی اپنی سیاسی پارٹی بنالینی چاہیے تھی۔ نئی پارٹی کا مقصد مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے اقتدار میں حصہ داری کو یقینی بنانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پارٹیوں کی قطار سے منسلک ہونے کے لیے سیاست میں نہیں آرہے ہیں۔ ہمارا مقصد ملک کے عوام کو ایک نیا متبادل مہیا کرانا ہے۔ یہ پارٹی سب کی ہے۔ ہم سبھی کی آواز بننا چاہتے ہیں۔ ویلفیئر پارٹی کی ایگزیکٹیو میں فی الحال 31 ممبران ہوںگے۔ الیاس اعظمی، فادر ابراہیم جوزف، مولانا عبدالوہاب خلجی، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اورللیتا نائر کو نائب صدر بنایا گیا ہے۔ سید قاسم رسول الیاس، سہیل احمد، پروفیسر رما پانچل، خالدہ پروین اور پی سی حمزہ کو پارٹی کا جنرل سکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر رما سوریہ راؤ، اخترحسین اختر، عامر رشید اور پروفیسر سبرامنیم پارٹی کے سکریٹری ہوںگے۔ عبدالسلام اصلاحی کو خازن بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرسکتی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے سوال پر ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ یہ ایک فرقہ پرست پارٹی ہے۔ کشمیر کی علیحدگی پسند پارٹیوں کے بارے میں بھی ان کا یہی جواب رہا، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی چاہیے۔ جموں و کشمیر کے تئیں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ کسی کو اتنا مجبور بھی نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ ہتھیار اٹھا لے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی نوجوانوں اور خواتین کو بھی انتخابی میدان میں اتارے گی اور غیرمسلموں کو بھی پارٹی کے ٹکٹ دیے جائیںگے۔ ان کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کو ہندوستانی شہری ہونے کے ناطیجو حقوق ملنے چاہئیں ، صحیح معنوں میں ابھی تک وہ نہیں مل پائے ہیں۔ مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ کب حالات بدلیں اور ان کی جان اور مال کو خطرہ پیدا ہوجائے۔ ملک کے موجودہ نظام کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے امیر کو مزید امیر اور غریب کو مزید غریب بنانے کا ہی کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی مسلمانوں کوان کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کرے گی۔ مسلمانوں کو ریزرویشن دلانے، اسلامی بینکنگ نظام کا قیام اور سچر کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرانے پر بھی زور دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مہنگائی اور بدعنوانی جیسے ایشو بھی اٹھائے جائیںگے۔

ویلفیئر پارٹی کے نشانے پر سب سے پہلے اترپردیش کا الیکشن ہے۔ فی الحال اس پارٹی کا دخل جنوب کی ریاستوں اور اترپردیش کی سیاست میں ہوگا۔ اگر جماعت اسلا می اترپردیش کے الیکشن میں اپنی طاقت لگادے اور اگر اسے مسلمانوں کی حمایت ملی تو ملک کی سیاست میں سونامی آسکتی ہے، جس کا اثر ہر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی پر پڑے گا۔اس کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور سب سے بڑا نقصان سماجوادی پارٹی کو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کا اعلان ہوتے ہی سماجوادی پارٹی سے تیکھا رد عمل سامنے آیاہے۔ سماجوادی پارٹی کے جنرل سکریٹری اور ترجمان موہن سنگھ نے کہا کہ یہ سب بی جے پی کا کھیل ہے اور کچھ نہیں، عوام بے وقوف نہیں ہیں۔ لوگ سب جانتے ہیں۔ اگر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا الیکشن لڑتی ہے تو عوام اس کے امیدواروں کو ر جیکٹ کردیںگے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذہبی جماعتوں کا سیاست میں کوئی کام نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے مذہبی کاموں پر ہی دھیان دیں۔ غور طلب ہے کہ اترپردیش کے زیادہ تر مسلمان سماجوادی پارٹی کے حامی رہے ہیں۔ ایسے میں نئی پارٹی کے آجانے سے سماجوادی پارٹی کے مسلم ووٹ بینک پر اثر پڑ سکتا ہے۔ نقصان صرف سماجوادی پارٹی کا ہی نہیں ہوگا۔ راہل گاندھی کانگریس پارٹی کو پھر سے مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کا مظاہرہ اچھا رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پوروانچل کے مسلم اکثریتی علاقوں میں کانگریس کو زبردست حمایت ملی۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جماعت کی طاقت بھی انہیں علاقوں میں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کانگریس پارٹی سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرانے میں اب تک ناکام رہی ہے، جس سے کانگریس پارٹی کی مسلم حمایت کم ہونا تقریباً طے ہے۔ فتح پوری مسجد کے شاہی امام مفتی محمد مکرم احمد کا کہنا ہے کہ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کا سیاست میں آنا بے حد ضروری ہے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی ایک سیاسی پارٹی ہو۔ ایسی پارٹی جو ایمانداری کے ساتھ قوم کی ترقی کے لیے کام کرے۔ جب تک مسلمانوں کی اقتدار میں حصہ داری نہیں ہوگی، تب تک ان کی حالت بہتر ہونے والی نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی کانگریس جیسی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے لیے کوئی اطمینان بخش کام نہیں کیا ہے۔

مسلمانوں کی حالت دلتوں سے زیادہ اچھی نہیں ہے۔ دلتوں کی ملک میں کئی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کی آواز کو اٹھانے کے لیے ایک سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے، اس میں دورائے نہیں ہوسکتی ہے، لیکن اس پارٹی کے الیکشن میں اترتے ہی اسے سیکولر پارٹیوں کی مخالفت جھیلنی پڑ سکتی ہے۔ کل تک جو لیڈران جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی فائدے کے لیے اچھے رشتے رکھتے تھے، وہی اس پارٹی کے سب سے بڑے دشمن بن جائیںگے۔ اس پارٹی کو مسلم لیڈران کی مخالفت بھی جھیلنی پڑے گی۔ خاص طور پر ان مسلم لیڈران کی جو مسلم ووٹ بینک کا خواب دکھا کر مختلف پارٹیوں میں مضبوط عہدوں پر پہنچے ہوئے ہیں۔ اس پارٹی پر الزامات بھی لگیںگے۔ مسلم لیڈر ہی کہیں گے کہ جماعت نے کبھی مسلمانوں کا بھلا نہیں کیا تو اس کی پارٹی کون سا قوم کو نہال کر دے گی۔اس پارٹی پر یہ بھی الزام لگے گا کہ جماعت نے الیکشن کے دوران بی جے پی کا ساتھ دیا ہے، ان سب سوالوں کا جواب دینا مشکل ہوگا۔مشکل اس لیے کیونکہ یہ پارٹی جتنی مظبوط ہوگی بی جے پی کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔

ویلفیئر پارٹی کی شروعات اچھی ہے۔ آئیڈیا لوجی کے نام پرا مریکہ، عالم کاری، لبرل ازم اور بازاری پن کی مخالفت انہیں عوام سے جوڑے گی۔ جماعت کے پاس مضبوط تنظیمی ڈھانچہ ہے۔ اس کا بھی فائدہ ملے گا۔کارکنان کی کمی نہیںہوگی، لیکن اس پارٹی کو ابھی کئی مشکلوں کا سامنا کرنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی کے پاس کوئی مقبول عام لیڈر نہیں ہے۔پارٹی نے مسلم سماج کے بڑے بڑے لوگوں کو اپنے بینر میں شامل تو کیا ہے، لیکن سیاست کی خاصیت یہ ہے کہ بغیر لیڈر شپ کے پارٹی بکھرنے لگتی ہے۔پارٹی کا لیڈر بننے کی مقابلہ آرائی میں لیڈران آپس میں لڑنے لگتے ہیں۔ ایسے میں پارٹی کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ویلفیئر پارٹی کے سامنے قیادت کا بحران ہے۔ کسی بھی مسلم پارٹی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے پاس ایسا لیڈر ہو جو نہ صرف مسلم سماج کا لیڈر ہو بلکہ اسے ملک کے دوسرے سماج کے لوگ بھی اپنا لیڈر مانیں۔ اب ایسا لیڈر کہاں سے آئے گا یہی جماعت اسلامی کی سب سے بڑی چنوتی ہے۔

Friday, March 08, 2013

اعلانات تو ہو گئے، عمل کب ہوگا؟‎


فردوس خان
 سرکار ہر سال بجٹ کے دوران متعدد اعلانات کرتی ہے، لیکن زیادہ تر اعلانات پر ٹھیک ڈھنگ سے عمل نہیں ہو پاتا اور آخرکار ایک دن وہ کاغذوں میں ہی دم توڑ دیتے ہیں اور جن اعلانات پر کام ہوتا ہے، ان کا فائدہ ضرورت مند لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پاتا ہے۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات تک ہی محدود رہتا ہے۔ حالانکہ اس دفعہ سرکار نے لگاتار بڑھتی مہنگائی اور سلنڈروں کی محدود تعداد سے پریشان عورتوں کو کچھ راحت دینے کی کوشش کی ہے۔ سرکار نے بڑے ووٹ بینک یعنی عورتوں، نوجوانوں اور غریبوں سے تین وعدے کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورتوں کی عزت اور حفاظت کو یقینی بنانا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہم لڑکیوں اور عورتوں کو مضبوط اور محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ عورتوں کے لیے 97134 کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ یہ پیسہ کئی اسکیموں کے توسط سے خرچ کیا جائے گا۔

دراصل، آٹھویں بار بجٹ پیش کر رہے پی چدمبرم نے اپنی تقریر کی شروعات میں ہی کہہ دیا تھا کہ ہر طبقے پر دھیان دینا ضروری ہے۔ درج فہرست ذات اور قبائل اور اقلیتی طبقہ کے لوگ پیچھے چھوٹے ہوئے ہیں۔ ہم عورتوں میں سبھی کی ترقی چاہتے ہیں۔ ملک میں پہلا خواتین بینک کھولا جائے گا۔ یہ بینک عورتوں کے لیے ہی ہوگا۔ خواتین صارفین کی مدد کے لیے شروع کیے جانے والے اس بینک کو عورتیں ہی چلائیں گی۔ اس کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہ بینک کتنا کامیاب ہوگا، اس وقت کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگا۔ آج جب عورتیں مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کر رہی ہیں اور کرنا چاہتی ہیں، ایسے میں عورتوں کے لیے الگ بینک کے جواز پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ بعض عورتوں کا ماننا ہے کہ ملک میں اس قسم کی شروعات کا دل سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے، کیوں کہ اس سے عورتوں میں خود اعتمادی بڑھے گی۔ لوگ اپنی بہن بیٹیوں کو پڑھانے اور انہیں با اختیار بنانے کے لیے بھی آگے آئیں گے۔ آج کے دور میں جب عورتوں کو کام کرنے کی جگہ پر اپنے مرد ساتھیوں کی گندی حرکتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے میں خواتین بینک ان کے لیے بہتر متبادل ثابت ہوں گے۔ قابل ذکر ہے کہ پہلے بھی بینکوں کی خواتین برانچ کھولنے کی کوششیں ہوئی ہیں، لیکن سیکورٹی کے مد نظر وہ کامیاب نہیں ہو پائیں۔ دراصل، سرکار خواتین بینک کے نام پر عورتوں کے ووٹ بینک پر نشانہ لگا رہی ہے، شاید اس لیے، کیوں کہ ملک کی تقریباً آدھی آبادی عورتوں کی ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ جس وقت وزیر خزانہ خواتین بینک بنانے کا اعلان کر رہے تھے، اس وقت یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی اور حزب اختلاف کی لیڈر سشما سوراج دھیرے دھیرے مسکرا رہی تھیں۔ دراصل، سونیا گاندھی کی مسکراہٹ سے لگ رہا تھا کہ عورتوں کے لیے کیے گئے اعلانات ان کے ایجنڈے کا حصہ ہیں، کیوں کہ پچھلے کافی دنوں سے وہ خواتین کی فلاح و بہبود پر خاصا زور دے رہی ہیں۔ حالانکہ سشما سوراج کو باوجود اس کے لگتا ہے کہ اس بجٹ میں عورتوں کے مفاد کی اندیکھی کی گئی ہے۔ سرکار نے خواتین بینک کا اعلان کرکے عورتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔

دہلی میں اجتماعی عصمت دری کی واردات ہونے کے بعد تنقیدوں سے گھری سرکار عورتوں کی حفاظت کے مدعے پر سنجیدہ نظر آئی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ عورتیں، نوجوان اور غریب ہندوستانی سماج کا چہرہ ہیں۔ عورتوں کی سیکورٹی کے لیے نربھے فنڈ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک ہزار کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔ کام کرنے والی عورتوں کی سیکورٹی کے لیے بنا یہ فنڈ غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والی عورتوں کی سیکورٹی پر بھی خرچ کیا جائے گا۔ اس دفعہ کے بجٹ میں عورتوں کی ترقی اور بہبود کے لیے دو ہزار کروڑ روپے الگ سے مختص کیے گئے ہیں۔ حاملہ عورتوں کے لیے 300 کروڑ روپے، اکیلی اور بیوہ عورتوں کے لیے 200 کروڑ اور ایس سی، ایس ٹی طالبات کے لیے 700 کروڑ روپے کے بجٹ کا انتظام کیا گیا ہے۔ اگر صرف وزارتِ خواتین و بہبود اطفال کے بجٹ پر نظر ڈالیں، تو اسے پچھلے سال 18500 کروڑ روپے ملے تھے، جب کہ اس سال 19450 کروڑ روپے ملے ہیں۔ لڑکیوں اور عورتوں کو با اختیار بنانے کے لیے راجیو گاندھی یوجنا کے تحت 650 کروڑ اور اندرا میترتو سہیوگ یوجنا کے تحت 500 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ایکی کرت بال سنرکشن یوجنا کے تحت 300 کروڑ روپے اور راشٹریہ پوشاہار مشن کے تحت بھی 300 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ قابل غور یہ بھی ہے کہ ملک میں پہلے سے ہی کئی اسکیمیں چل رہی ہیں، لیکن وہ بدعنوانی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ وزیر خزانہ نے ان اسکیموں میں شفافیت لانے کی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ اسی طرح ان اسکیموں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف لاکھوں لوگوں پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا۔ مثلاً، ملک میں تقریباً 27 لاکھ آنگن واڑی کارکن کام کر رہی ہیں۔ ان کے اپنے مسائل ہیں، جنہیں لے کر وہ وقت وقت پر تحریک بھی چلاتی رہی ہیں، لیکن اس طرف بھی سرکار نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ اب ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان اسکیموں کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے مضبوط کڑی کا کام تو یہی لوگ کرتے ہیں اور اگر ان کی ہی حالت ٹھیک نہیں ہوگی، تو اسکیموں کی صحت کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔

سرکار نے عورتوں کی زیوروں سے محبت کو دیکھتے ہوئے انہیں ایک تحفہ یہ بھی دیا ہے کہ اب وہ غیر ملکوں سے ایک لاکھ روپے تک کی قیمت کے سونے کے زیورات اپنے ساتھ لا سکتی ہیں، جو ڈیوٹی فری ہوں گے، جب کہ مردوں کے لیے یہ چھوٹ 50 ہزار روپے کے زیورات تک ہے۔ عورتیں بیرونی ممالک سے سونا لانے میں ملی راحت اور جواہرات کے سستا ہونے سے پرجوش ہیں، کیوں کہ زیورات میں تو ان کی جان بستی ہے۔ لڑکیاں برانڈیڈ کپڑے اور غیر ملکی جوتے سستا ہونے سے خوش ہیں، کیوں کہ نوجوانوں میں ہی ان کا چلن زیادہ ہے۔ رسوئی سلنڈروں کی قیمت نہ بڑھنے سے بھی عورتیں خوش نظر آ رہی ہیں، لیکن سرکار سلنڈروں کی قیمت پہلے ہی اتنا زیادہ بڑھا چکی ہے کہ اب گنجائش ہی کہاں بچتی ہے۔

بہرحال، بجٹ پر عام عورتوں کی بھی ملی جلی رائے ہے۔ نوکری پیشہ عورتوں کا کہنا ہے کہ اگر ٹیکس میں کچھ چھوٹ مل جاتی، تو بہتر تھا۔ اس لحاظ سے سرکار نے ہمیں مایوس ہی کیا ہے، لیکن خواتین بینک اور غیر ملک سے سونا لانے پر کسٹم ڈیوٹی میں ملی چھوٹ کا کچھ خواتین نے خیر مقدم کیا ہے۔