Monday, April 11, 2011

بدعنوانی ہی انتخابات کا اہم ایشو‎


فردوس خان
بدعنوانیکے ایشونے تمل ناڈو کی سیاست کا پارہ چڑھا دیا ہے۔برسراقتدار پارٹی دروڑ منیتر کشگم (ڈی ایم کے) کے سربراہ اور وزیراعلیٰ ایم کروناندھی بدعنوانی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے قریبی لیڈر اے راجا 2جی اسپیکٹرم گھوٹالے کی بھینٹ چڑھ کر جیل پہنچ گئے ہیں۔ اب ان کی ریمانڈ کی مدت بھی بڑھ گئی ہے۔ راجا کی مہربانی حاصل کرنے والے سوان ٹیلی کام کے مالک اور ڈی بی ریئلٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہد عثمان بلوا کو بھی سی بی آئی گرفتار کر چکی ہے۔ بلوا کی ڈی بی ریئلٹی کمپنی کے ذریعہ تمل چینل کلیگ نار ٹی وی کو 200 کروڑ روپے جاری کیے جانے کے معاملے کی سی بی آئی جانچ کر رہی ہے اور اسی سلسلے میں کنی ماجھی سے پوچھ گچھ کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ گلیگ نار ٹی وی میں کروناندھی کی بڑی حصہ داری ہے، جب کہ کنی ماجھی کی حصہ داری 20 فیصد ہے۔ ان کے بیٹے ایم کے اسٹالن اور ایم کے الاگیری آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اے آئی ایم ڈی ایم کے کی جنرل سکریٹری اور سابق وزیراعلیٰ جے للتاڈی ایم کے کی اقربا پروری، 2جی اسپیکٹرم گھوٹالا، بدعنوانی اور مہنگائی کو انتخابی ایشو بناتے ہوئے عوام سے مضبوط حکومت دینے کا وعدہ کر رہی ہیں۔ جب کہ ایم کروناندھی پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے ذریعہ سستا اناج دینے، ہر غریب کنبہ کو مفت رنگین ٹیلی ویژن دینے اور ترقیاتی کام کرنے کے نام پر عوامی حمایت حاصل کرنے کی قواعد میں مصروف ہیں۔ جے للتا یہ مان کر چل رہی ہیں کہ لیفٹ سے لے کر ایم ڈی ایم کے اور وجے کانت کے مضبوط اتحاد کو انتخاب میں کامیابی ملے گی۔ اے راجا کی گرفتاری سے بدعنوانی مخالف مہم کو قوت ملی ہے۔ حالانکہ ان پر بھی بدعنوانی کے کئی معاملے چل رہے ہیں، جن میں کروڑوں روپے کے رنگین اسکیم، تانسی زمین گھوٹالہ اور آمدنی سے زیادہ جائیداد کے معاملے شامل ہیں۔ جب وہ وزیراعلیٰ بنی تھیں تب ان کے پاس 2.61 کروڑ روپے کی جائیدادتھی اور ان کی مدت کار میں یہ جائیداد بڑھ کر تقریباً 70 کروڑ کی ہو گئی۔ تمل ناڈو میں ایم کروناندھی کی قیادت میں ڈی ایم کے-کانگریس اتحاد، جے للتا کا اے ڈی ایم کے-ایم ڈی ایم کے، وجے کانت کے ڈی ایم ڈی کے کا اتحاد اور ڈاکٹر رام دوس کی قیادت میں پٹالی مکل کاچی(پی ایم کے) اور بی جے پی وغیرہ انتخابی میدان میں ہیں۔ انتخاب جیتنے کی غرض سے سیاسی پارٹیاں ناراض پارٹیوں کو راضی کرنے میں کوئی بھی کمی نہیںچھوڑ رہی ہیں۔ اکھل بھارتیہ انا دروڑ منیتر کشگم(اے ڈی ایم کے) سے الگ ہوئے مروملارچی دروڑ منیتر کشگم(ایم ڈی ایم کے) کو لبھانے کی کوشش کرتے ہوئے ایم کروناندھی نے اپنی پارٹی کی قیادت والے اتحاد کو تمل ناڈو میں اسمبلی انتخاب میں جیتنے کے لیے تمام دروڑ پارٹیوں سے ایک اسٹیج پر آنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے مراسولی میں لکھا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جو پارٹی الگ تھلگ ہو گئی ہیں، جو پارٹی دیگر پارٹیوں سے بچھڑ گئی ہیں اور جنہوں نے خود کو نہیں بیچا وہ تمام ساتھ آئیں۔ ایم ڈی ایم کے لیڈر وائیکو کے اے ڈی ایم کے سے الگ ہونے کے اعلان کے بعد اور ان کے لٹّے کی طرف جھکاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کروناندھی نے کہا کہ ہمیں ٹائیگرس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ ایم ڈی ایم کے اسمبلی کی 234 میں سے 35 سیٹوں پر انتخاب لڑنا چاہتی تھی، جسے کم کر کے 30 کر دیا گیا۔ اس کے بعد اے آئی ایم ڈی ایم کے نے اس میں مزید کمی کرتے ہوئے اسے 6 سیٹوں تک سمیٹ دیا اور مخالفت کرنے پر یہ سیٹیں بڑھا کر 9 کر دی گئیں۔ ایم ڈی ایم کے نے اب 35 کی بجائے 21 سیٹیں مانگیں، لیکن جے للتا نہیں مانیں۔ آخر وائیکو نے انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ پچھلے انتخاب میں کروناندھی نے دو وعدے کیے تھے، پہلا پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت دو روپے کلو چاول دینا اور ایسے ہر گھر کو ایک مفت رنگین ٹیلی ویژن دینا، جس کے پاس ٹی وی نہیں ہے۔ ان وعدوں نے اثر دکھایا اور کروناندھی کو کامیابی ملی۔ کروناندھی نے 50 اور 60 کی دہائی میں تمل آندولن کی قیادت کی اور ایمرجنسی کے دوران جیل بھی گئے۔ انہیں اصول پسند لیڈر کی شکل میں جانا جاتا تھا، لیکن اپنی اولاد کے چکر میں پڑ کر انہوں نے تمام اصولوں کو طاق پر رکھ دیا۔ ڈی ایم کے کے وزراء کو ملائی دار محکمے دلانے کے لیے مرکز کو حمایت واپسی کی دھمکی دینے اور وزارت مواصلات اپنی پارٹی کے پاس رکھنے کی ان کی ضد نے ان کے لالچ کو جگ ظاہر کردیا۔ سیٹوں کے حوالے سے ڈی ایم کے اور کانگریس بھی آمنے سامنے آ گئی تھیں۔ یہاں تک کہ ڈی ایم کے نے یو پی اے حکومت سے اپنے وزراء کو ہٹانے تک کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ڈی ایم کے کانگریس کو 60 سیٹیں دینا چاہتی تھی، لیکن کانگریس کو زیادہ سیٹیں چاہیے تھیں۔ آخر کار ڈی ایم کے کو کانگریس کو 63 سیٹیں دینی پڑیں۔ دراصل کانگریس تمل ناڈو میں اپنا اثر بڑھانا چاہتی ہے۔ گزشتہ دنوں راہل گاندھی نے ریاست میں کئی دورے کیے اور پارٹی کارکنان کو طاقت بڑھانے کے لے کہا تھا۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں کانگریس نے اتنی سیٹوں پر انتخاب نہیں لڑا۔ 1996 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے اے ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد کر کے 64 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے۔ انتخاب میں اتحاد کو سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالانکہ اس کے بعد کانگریس ریاست میں تیسرے درجے کی پارٹی بن گئی، لیکن وہ اپنے دم پر انتخاب لڑنے کی حالت میں نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ڈی ایم کے سیٹوں کے بٹوارے کو لے کر نہیں بلکہ 2جی اسپیکٹرم گھوٹالے کی جانچ کو لے کر یو پی اے سے خفا تھی۔ وہ حکومت اور کانگریس پر دباؤ بنانا چاہتی تھی، لیکن بازی پلٹ گئی۔ سونیا گاندھی کے سخت رخ کے سامنے ڈی ایم کے کی ایک نہ چلی۔ اس کی سمجھ میں آ گیا کہ کانگریس کو اس کی اتنی ضرورت نہیں، جتنی اسے کانگریس کی ہے۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کا سب کچھ داؤ پر لگا ہے، جب کہ کانگریس کے پاس اس کا متبادل موجود ہے۔ ڈی ایم کے کی سیاسی دشمن جے للتا کانگریس سے کہہ چکی ہیں کہ وہ ڈی ایم کے کے 18 ممبران پارلیمنٹ کی فکر نہ کرے، کیوں کہ حکومت بچانے کے لیے ممبران پارلیمنٹ کو جٹانے کی ذمہ داری ان کی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کانگریس شاید ہی جے للتا پر بھروسہ کرے۔ جے للتا 1991 میں کانگریس کے ساتھ تھیں۔ 1998 میں انہوں کانگریس صدر سونیا گاندھی کو ایک چائے پارٹی دی اور بی جے پی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔ انہوں نے 2001 میں اقتدار حاصل کیا اور بی جے پی سے نزدیکیاں بھی قائم رکھیں۔ انہوں نے کانگریس اور سونیا پر لفظوں کے تیر چلانے شروع کر دیے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جس دن سونیا گاندھی ملک کی وزیراعظم بنیںگی، وہ دن ملک کے لیے بہت برا ہوگا۔ مگر سیاست میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب دوست دشمن اور دشمن دوست بن جائے۔ تمل ناڈو کی سیاست میں ایک بار ڈی ایم کے تو دوسری بار اے ڈی ایم کے کی حکومت رہی ہے۔ پہلی بار ڈی ایم کے نے کانگریس کی حمایت سے مسلسل دوسری بار اقتدار حاصل کیا ہے۔