Friday, August 12, 2011

گریٹر نوئیڈا تحویل اراضی معاملہ: خواب بننے اور ٹوٹنے کی داستان‎


فردوس خان
تحویل اراضی معاملے میں سرکار کا رویہ اور اعلیٰ افسروں کا لالچ کسانوں،بلڈروں اور اپنے گھر کا خواب سجانے والے لوگوں کے لیے مصیبت کا سبب بن گیا ہے۔ سرکار کی کوتاہی یہ ہے کہ تحویل اراضی نظرثانی بل کو اب تک قانون کا درجہ نہیں دیا گیا۔ انگریزی دور کا قانون آج بھی نافذ ہے، جس کے سبب اکثر عوام اور سرکار کے درمیان ٹکرائو کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ موجودہ تحویل اراضی قانون 1894 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس وقت سرکار نے اس قانون کے ذریعہ عوامی ترقیاتی کاموں کے علاوہ سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کا کام کیا تھا۔آزادی کے بعد خاص طور پر 1990 کی دہائی میں  لبرل ازم اور نجکاری کو بڑھاوا ملنے کے دور میں اسی قانون کا سہارا لے کر سرمایہ داروں نے لوگوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کردیا۔ سال 2005 میں مزید اقتصادی علاقے ایکٹ (ایس ای زیڈ)پاس ہونے کے ساتھ ہی سرمایہ داروں کو اور زیادہ تحویل اراضی کے مواقع  مل گئے۔ حالانکہ ایس ای زیڈ کی کافی مخالفت بھی کی گئی۔ کانگریس کی قیادت والی مرکز کی یو پی اے سرکار نے تحویل اراضی نظر ثانی بل لانے کا وعدہ کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ 6 دسمبر 2007 کو اس وقت کے دیہی ترقیات کے وزیر رگھوونش پرساد پارلیمنٹ میں تحویل اراضی نظر ثانی بل 2007 پیش کر چکے ہیں۔ اس وقت یہ بل رائے دہی کے لیے دیہی ترقیاتی کمیٹی کو دیا گیا تھا۔ تقریباً آٹھ ماہ بعد کمیٹی نے اکتوبر 2008 میں پارلیمنٹ میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ پھر دسمبر 2008 میں وزراء کے گروپ نے کمیٹی کے ذریعہ دیے گئے مشوروں پر اتفاق کیا تھا اور اسے تحویل اراضی نظر ثانی بل 2009 کا نام دیتے ہوئے 25 فروری 2009 کو پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا تھا، مگر اس کے بعد اس بِل کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔

تحویل اراضی کے خلاف گریٹر نوئیدا کے گائوں بھٹہ پارسول میں کسانوں اور پولس کے درمیان خونی مقابلے کے بعد اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ مایا وتی نے گزشتہ جون میں نئی تحویل اراضی پالیسی کا اعلان کر کے کسانوں کو منانے کی کوشش کی۔ اس نئی تحویل اراضی پالیسی کے مطابق پرائیویٹ کمپنیوں کو کسانوں سے سیدھے زمین خریدنی ہوگی ۔ ریاستی سرکار صرف ثالثی کا کردار ادا کرے گی اور وہ صرف تحویل اراضی کا نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔ پرائیویٹ کمپنیاں اس وقت تک کسانوں کی زمین تحویل میں نہیں لے سکیں گی جب تک اس علاقے کے 70 فیصد کسان اس کے لیے راضی نہیں ہو جاتے۔ پالیسی میں یہ بھی صاف کیا گیا ہے کہ تحویل شدہ اراضی کا 16 فیصد میں تعمیراتی کام مکمل کرنے کے بعد اسے کسانوں کو مفت دینا ہوگا، جس پر اسٹامپ ڈیوٹی نہیں لگے گی۔ تحویل اراضی کے عوض کسان کو 33 سال کے لیے 23 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے سالانہ ادا کیا جائے گا۔جو زمین معاوضے کے علاوہ ہوگی اس کی ادائیگی پر سالانہ 800 روپے کا اضافہ ہوگا۔ اگر کسان سالانہ ادائیگی نہیں لینا چاہے گا تو اسے یک مشت 2,76,000 روپے فی ایکڑ کے حساب سے بازآبادکاری گرانٹ دیا جائے گا۔ اگر معاوضے کی رقم سے ایک سال کے اندر صوبے میں کہیں بھی زراعتی زمین خریدی جاتی ہے تو اس میں بھی اسٹامپ ڈیوٹی سے پوری چھوٹ ملے گی۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ کمپنیوں کو تحویل اراضی سے بے زمین ہو رہے خاندان کے ایک ممبر کو نوکری دینی ہوگی۔ تحویل اراضی سے متاثر ہر گائوں میں ڈیولپر تنظیم کے ذریعہ ایک کسان بھون کی تعمیر اپنے خرچ پر کرانا ہوگی۔ اس کے علاوہ پروجیکٹ کے شعبے میں درجہ آٹھ تک ایک ماڈل اسکول کھیل کے میدان سمیت آپریٹ کرنا ہوگا۔ اسی پالیسی میں راج مارگ اور نہر  جیسی بنیادی ضرورتوںکے لیے تحویل اراضی کا کام معاہدے کے تحت آپسی رضامندی سے طے کیا جانا بھی شامل ہے۔ غور طلب ہے کہ 165 کلو میٹر یمنا ایکسپریس وے کے 2500 کروڑ کے اس منصوبے کے تحت نوئیڈا ، گریٹر نوئیڈا، بلند شہر، علی گڑھ ، ہاتھرس، متھرا اور آگرہ کے قریب 334 گائووں کی زمین تحویل میں لی جانی ہے۔ اس ہائی وے کے قریب پانچ جگہوں پر ٹائون شپ اور اسپیشل ایکانومک ژون  بنائے جانے ہیں۔ یہ پروجیکٹ جے پی گروپ، مونٹی چڈھا اور  دیگر بلڈروں کی ہے۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ جولائی ماہ کے پہلے ہفتہ میں گریٹر نوئیڈا تحویل اراضی  معاملے کی سنوائی کرتے ہوئے ریاستی سرکار کو جم کر پھٹکار لگائی اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو صحیح بتاتے ہوئے گریٹر نوئیڈا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی لگایا۔ جسٹس جی ایس سنگھوی اور جسٹس اے کے گانگولی کی بینچ نے کہا کہ ریاستی سرکار نے تحویل اراضی قانون کو استحصال کا قانون بنا دیا ہے۔ ملک بھر میں ایک خطرناک مہم چلائی جا رہی ہے اور انگریزوں کے زمانے کے قانون کے زریعہ غریبوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ عدالت نے تبصرہ کرتے  ہوئے کہا کہ اس سے کچھ بلڈر فائدہ اٹھاتے ہیں اور غریب کسان برباد ہو جاتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ کسان کے نام پر آپ کیا کر رہے ہیں؟یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سرکار کسی تحویل شدہ زمین کی آمدنی سے وہاں نہریں اور پُل وغیرہ بنائے، لیکن آپ مَول اور کمرشیل ٹائون شپ بنا رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ رہائشی علاقہ ہے، لیکنشہ کس کے لیے ہے؟ جن لوگوں کی زمینیں لی گئی ہیں، کیا وہ ضرورت مند نہیں ہیں؟جو عمارتیں بنائی جا رہی ہیں، اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہاں سوئمنگ پُل ، آیورویدک مساج پارلر اور ہیلتھ کلب وغیرہ ہوں گے، کیا یہ غریبوں کے لیے ہیں؟ ججوں کو بیوقوف نہ سمجھا جائے۔  اس سے پہلے کی سنوائی میں بھی عدالت نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ریاستوں میں نندی گرام جیسے حادثے نہیں چاہتی ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں تب آیا، جب الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش سرکار کے گریٹر نوئیڈا میں 400  ہیکٹئر زمین کی تحویل کو غیر قانونی ٹھہراتے ہوئے رد کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد گریٹر نوئیڈا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور کچھ ڈیولپرس نے سپریم کورٹ میں رِٹ دائر کی تھی۔ گریٹر نوئیڈا کی اس تحویل اراضی پر 50 سے زیادہ بلڈرس اپنے پروجیکٹس پلان کر رہے تھے۔ اس معاملے میں اتر پردیش سرکار نے ارجینسی کلاز کے تحت زمین تحویل میں لی تھی۔ اس کلاز کے تحت سرکار کسانوں سے ان کے اعتراضات سنے بغیر ہی زمین ایکوائر کر سکتی ہے۔

اس سے پہلے 18 اپریل کو سپریم کورٹ نے گوتم بدھ نگر میں گریٹر نوئیڈا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعہ کمرشیل مقصد کے لیے کسانوں کی 205 ایکڑ زمین کی تحویل کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جائداد کا حق قانونی حق ہے اور سرکار من مانے طریقے سے کسی شخص کو اس کی زمین سے محروم نہیں کر سکتی۔ جسٹس جی ایس سنگھوی  اور جسٹس اے کے گانگولی کی بینچ نے کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 300 اے کے  مطابق کسی بھی شخص کو اس کے سرمائے سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔ زمین کے مالکوں رادھے شیام اور دیگر نے عدالت میں ایک رِٹ داخل کر کے مارچ 2008 میں کی گئی تحویل اراضی کو چیلنج کیا تھا۔ اتر پردیش سرکار نے ستمبر 2007 میں تحویل اراضی  کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا اور اس کے بعد کسانوں سے 850 روپے فی مربع میٹر کی شرح سے زمین لی گئی تھی۔ کسانوں کا الزام ہے کہ گریٹر نوئیڈا اتھارٹی نے  صنعت کاری  کے لیے زمین ایکوائر کی تھی لیکن اسے زیادہ قیمت پر بلڈروں کو بیچ دیا گیا۔

نوئیڈا اور گریٹر نوئیڈا میں تحویل اراضی کے خلاف رِٹ پر سنوائی کر رہی الٰہ آباد ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچنے کسانوں ، نوئیڈااتھارٹی اوربلڈروں سے معاملہ آپسی بات چیت کے ذریعے سلجھانے کو کہا تھا۔ جسٹس امیتاو لالا اور اشوک شریواستو کی بینچ نے گوتم بدھ نگر کے درجنوں گائووں کے سیکڑوں کسانوں کی رِٹ پر سنوائی کرتے ہوئے کہا کہ جو کسان تحویل اراضی کے بدلے معاوضہ لینا چاہتے ہیں، وہ 12 اگست تک لے سکتے ہیں،ساتھ ہی عدالت نے یہ معاملہ بڑی بینچ کو سونپ دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ اس دوران کسی بھی کسان پر سمجھوتے کے لیے دبائو نہ ڈالا جائے۔ معاملے پر اگلی سنوائی 17 اگست کو ہوگی۔ ان کسانوں نے ریاستی سرکار کے ذریعہ تقریبا 3000 ہیکٹئر زمین کی تحویل کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے سرمایہ کاروں اور بلڈروں کی رِٹ پر کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ سرمایہ داروں نے نوئیڈا ایکسٹینشن فلیٹ بایرس ایسوسی ایشن کے بینر تلے، بلڈروں کے ساتھ خود کو اس معاملے میں پارٹی بنانے کی اپیل کی تھی۔ عدالت کو بسرکھ،روضہ یعقوب پور اور ہیبت پور کی کل 3251 ایکڑ زمین کی تحویل پر فیصلہ سنانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نوئیڈا ایکسٹینشن کے قریب ایک لاکھ فلیٹوں کا مستقبل طے ہو جائے گا۔ 12 مئی کوستیہ پال چودھری نام کے شخص کی رِٹ پر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے گریٹر نوئیڈا کے گائوں شاہ بیری میں قریب 156  ہیکٹئر زمین کی تحویل رد کر دی۔ 15 مئی کو دادری میں سورج پور کی 72 ہیکٹئر زمین کی تحویل رد کر دی گئی۔ 30 مئی کو گریٹر نوئیڈا کے گائوں گلستاں پور کی 170 ہیکٹئر زمین کی تحویل رد کر دی گئی۔ 31 مئی کو گائوں بسرکھ، جلال پور، دیولا میں زمین تحویل پر ہائی کورٹ نے اسٹے دیا اور 22 جون کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو گریٹر نوئیڈا اتھارٹی کے علاوہ کئی بلڈروں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ شاہ بیری میں سات بلڈروں کو عدالت کے حکم سے زمین لوٹانی ہوگی۔ ان میں امر پالی ، یونیٹیک، سپر ٹیک اور مہا گن شامل ہیں۔ امرپالی اور یونیٹیک کے آٹھ ہزار فلیٹ بننے ہیں، جبکہ سپر ٹیک اور مہا گن کے 400 وِلّا بننے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عدالت کے فیصلے سے چھ ہزار لوگ متاثر ہوں گے۔ امر پالی کا کہنا ہے کہ وہ سرمایہ کاروں کو دوسرے پروجیکٹس میں منتقل کر رہے ہیں۔ مہا گن کا بھی کہنا ہے کہ ان کے پروجیکٹس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جبکہ سپرٹیک کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے جو متنازعہ علاقے میں ہو۔

اس کے بعد عدالت نے 21 جولائی کو گائوں پت واڑی کی 450 ایکڑ زمین کی تحویل رد کر دی تھی۔ عدالت کے اس فیصلے سے قریب 20 ہزار فلیٹ کھٹائی میں پڑ گئے۔ اگر عدالت نے ان تینوں گائووں کی زمین کی تحویل رد کر دی تو گریٹر نوئیڈا  انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو نوئیڈا ایکسٹینشن کی کل 4089 ایکڑ زمین کسانوں کو واپس کرنی پڑے گی۔ نوئیڈا ایکسٹینشن کل 13 گائووں کی 8607 ایکڑ زمین کو ملا کر بنا ہے۔ اگر اس میںسے 4089 ایکڑ زمین گھٹا دی جائے تونوئیڈا ایکسٹینشن کے نام پر محض 4518 ایکڑ زمین بچے گی یعنی آدھا نوئیڈا ایکسٹینشن ختم ہو جائے گا۔ گریٹر نوئیڈا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے گائوں شاہ بیری اور پت واڑی میں تحویل رد کیے جانے کے بعد یہاں لگے بلڈروں کے ہورڈنگس ہٹوا دیے۔ اس کے علاوہ کسانوں نے بھی کام کی جگہ پر جا کر وہاں چل رہے تعمیری کام کو رکوا دیا۔
کسانوں کی مخالفت کی وجہ سے نوئیڈا ایکسٹینشن کے فلیٹوں کی تعمیر خطرے میں پڑ گئی ہے۔ نوئیڈا میں اب تک بلڈروں نے ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ  رقم کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ نوئیڈا میں مونیٹیک ، لوٹس، اجنارا ، سپر ٹیک اور اومیکس سمیت قریب 26 بلڈروں کے پروجیکٹس بن رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی نوئیڈا میں فلیٹ بک کرانے والے لوگوں پر بھی مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ بے شمار لوگوں نے یہاں گھر خریدنے کے لیے اپنی جمع پونجی لگانے کے علاوہ بینکوں سے بھی قرض لیا تھا۔ ان پروجیکٹوں میں قریب 25 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا اندازہ ہے۔ عدالتوں کے ذریعہ تحویل اراضی رد کے جانے سے ان کے آشیانے کے سپنے پر بجلی گر پڑی ہے۔ کسانوں کے بعد سرمایہ کاروں نے بھی عدالت کی پناہ لی ہے۔ 20 جولائی کو نوئیڈا ایکسٹینشنفلیٹ بایرس ایسوسی ایشن نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایک رِٹ داخل کر کے اپیل کی ہے کہ تحویل اراضی معاملے پر فیصلہ کرنے سے پہلے ان کاموقف بھی سنا جائے۔ گزشتہ 23   جولائی کو این ای ایف بی ڈبلو اے کے بینر تلے سرمایہ کاروں نے پیدل مارچ نکال کراپنی ناراضگی جتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پیسہ نہیں گھر چاہیے، ہمیں بھی انصاف چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکار کسانوں کو واجب معاوضہ دلا کر ان کے گھر کے سپنے کو ٹوٹنے سے بچائے۔حالانکہ بلڈروں کا کہنا ہے کہ عدالت کا حکم کچھ فلیٹوں کے لیے ہے، پورے ایکسٹینشن کو لے کر پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ بلڈروں کو یہ خوف ضرور ہے کہ اگر سبھی کسان عدالت چلے گئے تو ان کا بھاری  نقصان ہو سکتا ہے۔ بلڈروں نے بھی سرکار سے اس معاملے کو جلد سے جلد سلجھانے کی مانگ کی ہے۔ کنفیڈریشن آف رئیل اسٹیٹ ڈیولپرس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے مغربی اتر پردیش کے  عہدیداران گیتامبر آنند ، انیل شرما ، آر کے اروڑا اور منوج گوڑ کا کہنا ہے کہ سرکار اور اتھارٹی کو ایسا طریقہ اپنانا چاہیے ، جس سے فلیٹ بک کرانے والوں کے ساتھ ساتھ ان کے نقصان کی بھی بھرپائی ہو سکے۔

ایک اندازے کے مطابق ، مختلف بینکوں کے قریب 1200 کروڑ روپے پھنس گئے ہیں۔ حالانکہ بینکوں نے اس معاملے میں ابھی تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے، بتا یا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں بینک خود کو ٹھگا محسوس کر رہے ہیں، کیوںکہ انہوں نے نوئیڈا اتھارٹی کے علاوہ بلڈروں اور سرمایہ کاروں کو بھی قرض دیا ہے یعنی ایک ہی سرمایہ کے لیے تین تین قرض دیے گئے۔ ان پروجیکٹوں میں سب سے زیادہ پیسہ بھارتیہ اسٹیٹ بینک، پنجاب نیشنل بینک، بینک آف بڑودہ، ، ایکسِس بینک، ایچ ڈی ایف سی بینک، بینک آف مہاراشٹر، کارپوریشن بینک اور آئی سی آئی سی آئی کا لگا ہوا ہے۔ فی الحال بینکوں نے نوئیڈا ایکسٹینشن کے فلیٹوں کے لیے قرض دینے پر پابندی لگا دی ہے۔
نوئیڈا ایکسٹینشن میں تعمیر ی کام میں لگے ٹھیکہ داروں نے بھی کام روکے جانے پر  ناراضگی جتاتے ہوئے مظاہرہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم پر کام رکنے سے ان کا کام کاج ٹھپ ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی تعمیر ی کام میں لگے ہزاروں لوگ بھی بے روزگار ہو گئے ہیں۔

ادھر، مرکزی فروغ انسانی وسائل کے وزیر کپل سبل نے گریٹر نوئیڈا میں تحویل اراضی سے پیدا ہوئے حالات پر کسی بھی  طرح کا  تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ریاستی سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کا حل تلاش کرے۔ انہوں نے کہا کہ حتمی طور سے یہ بڑا مسئلہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آپ پورے ملک کے گھوٹالوں پر غور کریں تو زیادہ تر زمین اور دولت سے جڑے ہوئے ہیں۔
اب سرکار ، گریٹر نوئیڈا اتھارٹی، بلڈروں اور سرمایہ کاروں کو 17   اگست کے فیصلے کا انتظار ہے۔ بہر حال، سبھی کی کوشش ہے کہ معاملہ آپسی رضامندی سے ہی سلجھ جائے۔

Thursday, July 28, 2011

بھوکوں کو روٹی دینے کی قواعد‎


فردوس خان 
ملک میں غذائی تحفظ (فوڈ سیکورٹی) بل کو منظوری ملنے سے فاقہ کشی کی وجہ سے ہونے والی اموات میں کچھ حد تک کمی آئے گی، ایسی امید کی جا سکتی ہے۔حال ہی میں یو پی اے کی صدر سونیا گاندھی کی صدارت والی قومی صلاح کار کمیٹی( این اے سی) نے قومی غذائی تحفظ بل 2011 کو منظوری دی ہے۔ اس کا مقصد فاقہ کشی کے شکار لوگوں کو غذائی تحفظ فراہم کرانا ہے۔اگر یہ بل پارلیمنٹ میں پاس ہو جاتا ہے تو ملک کے عوام کو رعایتی قیمتوں پر اشیاء خوردنی مل سکے گی۔بل کے مطابق،46فیصد گائوں میں رہنے والے اور 28 فیصد شہر میں رہنے والے خاندانوں کو ترجیحی گروپ میں شامل کیا جائے گا۔ ان خاندان کے فی ممبر سات کلواناج یعنی تین روپے کلو گیہوں، دو روپے کلو چاول اور ایک روپے کلو کی شرح سے موٹااناج لے سکیں گے۔ 49 فیصد دیہات کے لوگ اور 22 فیصد شہر میں رہنے والے خاندانوں کو عام درجے کے گروپ میں رکھا گیا ہے۔انہیں چار روپے کلو کی شرح سے اناج ملے گا۔

ملک کی 32 فیصد آ بادی غریبی سطح کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ، جو فصل کاٹے جانے کے بعد کھیت میں بچے ہوئے اناج اور بازار میں پڑی گلی سڑی سبزیاں سمیٹ کر کسی طرح اس سے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔بڑے شہروں میں بھی بھوک سے بے حال لوگوں کو کوڑے دانوں میں سے روٹی یا بریڈ کے ٹکڑوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ روزگار کی کمی اور غریبی کی مار کی وجہ سے کتنے ہی خاندان چاول کے کچھ دانوں کو پانی میں ابال کر پینے کو مجبور ہیں۔ ایک طرف گوداموں میں لاکھوں ٹن اناج سڑتا ہے تو دوسری طرف لوگ بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں۔ایسی حالت کے لیے کیا انتظامیہ سیدھے طور پر قصوروار نہیں ہے؟اس لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت بل کو منظور کرانے کے ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنائے کہ اس منصوبے پر ایمانداری سے عمل ہو۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ ہمارے ملک میں آزادی کے بعد سے اب تک غریبوں کی بھلائی کے لیے منصوبے تو کئی بنائے گئے ہیں لیکن لال فیتہ شاہی کی وجہ سے وہ محض کاغذوں تک ہی سمٹ کر رہ گئے ۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے تو اسے قبول کرتےہوئے 
یہاں تک کہا تھا کہ حکومت کی طرف سے چلا ایک روپیہ غریبوں تک پہنچتے پہنچتے پندرہ پیسے ہی رہ جاتا ہے۔

ملک میں ہر روزقریب سوا آٹھ کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں، جبکہ ہر سال لاکھوں ٹن اناج سڑ جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اناج کی بربادی پر سپریم کورٹ نے سخت رخ اپناتے ہوئے مرکزی سرکار سے کہا تھا کہ گیہوں کو سڑانے سے اچھا ہے، اسے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ کورٹ نے اس بات پر بھی حیرانی جتائی تھی کہ ایک طرف اتنی بڑی تعداد میں اناج سڑ رہا ہے، وہیں تقریبا 20 کروڑ لوگ قلت غذا کے شکار ہیں۔ گزشتہ سال 12 اگست کو سماعت کے دوران جسٹس دلویر بھنڈاری اور جسٹس دیپک ورما کی بنچ نے حکومت کو حکم جاری کیا تھا کہ ہر صوبے میں ایک بڑا گودام بنایا جائے اور ہر ایک ڈویژن ، ضلع میں بھی گودام بنائے جائیں، کورٹ نے یہ بھی کہا کہ خشک سالی اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کو مضبوط کیا جائے۔ساتھ ہی یہ یقینی بنایا جائے کہ مناسب قیمت کی دکانیں مہینے بھر کھلی رہیں۔ اس سے پہلے 27 جولائی کو سنوائی میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہوں، وہاں اناج کا ایک بھی دانا بیکار چھوڑنا گناہ ہے۔ مگر کورٹ کے حکم پر کتنا عمل ہوا، کسی سے چھپا نہیں ہے۔ حالانکہ کچھ ماہ تک  پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت لوگوں کو اناج تقسیم کیا گیا، لیکن اس میں بھی دھاندلی کیے جانے کی خبریں سامنے آئیں۔
پچھلے کافی عرصے سے ہر سال لاکھوں ٹن گیہوں برباد ہو رہا ہے۔ بہت سا گیہوں  کھلے آسمان کے نیچے بارش میں بھیک کر سڑ جاتا ہے۔ وہیں گوداموں میں رکھے اناج کا بھی 15 فیصد حصہ ہر سال خراب ہوجاتا ہے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق، انڈین فوڈ کارپوریشن (ایف سی آئی) کو گوداموں میں سال 1997 سے 2007 کے دوران 1.83 لاکھ ٹن گیہوں، 6.33 لاکھ ٹن چاول ، 2.20 لاکھ ٹن دھان اور 111 ٹن مکا سڑ چکا ہے۔ اتنا ہی نہیں ، کولڈ اسٹوریج کی کمی کی وجہ سے ہر سال تقریباً 60 ہزار کروڑ روپے کی سبزیاں اور پھل بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق، پچھلے چھ برسوں میں پورے ملک کے گوداموں میں 10 لاکھ 37 ہزار 738 ٹن اناج سڑ چکا ہے۔ ساتھ ہی ان گوداموں کی صفائی پر تقریباً دو کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ ایف سی آئی کے مطابق، پچھلے سال جنوری تک 10,688 لاکھ ٹن اناج خراب ہو چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال دو لاکھ ٹن اناج خراب ہو جاتا ہے۔
موصولہ اطلاع کے مطابق، پچھلے سال سرکاری ایجنسیوں نے چھ کروڑ ٹن اناج خریدا، جبکہ گودام میں 447.09  لاکھ ٹن اناج رکھنے کی صلاحیت ہے۔ ایسے میں باقی بچے اناج کو کھلے آسمان کے نیچے رکھا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں تقریباً 28   ہزار کروڑ روپے کا اناج کھلے میں پڑا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایک تو پہلے ہی گوداموں کی کمی ہے، اس کے باوجود سرکاری گوداموں کو پرائیویٹ کمپنیوں کو کرائے پر دے دیا جاتا ہے اور اناج کھلے میں سڑتا رہتا ہے۔ جن گوداموں میں اناج رکھنے کی جگہ بچی ہوئی ہے،لا پرواہی کی وجہ سے وہاں بھی اناج نہیں رکھا جاتا ہے۔ کھلے میں پڑے اناج کو ترپال یا پلاسٹک شیٹ سے ڈھک دیا جاتا ہے، لیکن بارش اور پانی بھر جانے کی وجہ سے اناج محفوظ نہیں رہ پاتا۔ پانی میں بھیگے اناج میں کونپل پھوٹنے لگتی ہے اور کچھ دنوں بعد سڑ جاتا ہے۔گوداموں میں رکھے اناج کو کیڑوں اور چوہوں سے بچانے کے بھی انتظام نہیں کیے جاتے، جس سے اناج میں کیڑے لگ جاتے ہیں اور اناج کو چوہے کھا جاتے ہیں۔ افسران کے ذریعہ چوری چھپے سرکاری اناج بیچنے کے الزام بھی لگتے رہے ہیں۔ گوداموں سے کم ہوا اناج چوہوں کے حصے میں لکھ دیا جاتا ہے۔

حیرانی کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایک طرف  ملک کے پاس اناج کا اتنا ذخیرہ  ہے کہ اسے رکھنے تک کی جگہ نہیں ہے، دوسری طرف ملک کی ایک بڑی آبادی کو پیٹ بھر  کھانا نصیب نہیں ہو پاتا ہے۔ یہ آبادی فاقہ کشی کی لپیٹ میں ہے ۔ گلوبل ہنگر   انڈیکس میں انٹرنیشنل فوڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے 88 ملکوں کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کو 66 ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔ہندوستان کے اندر پچھلے کچھ سالوں میں لوگوں کی خوراک میں کمی آئی ہے۔دیہاتی علاقوں میں ہر آدمی کی اوسطاً خوراک  1972-1973 میں 2266 کیلوری یومیہ تھی، جو اب کم ہو کر 2149 رہ گئی ہے۔ ملک میں آبادی 1.9 فیصد کے اوسط سے بڑھی ہے، وہیں غذائی پیداوار 1.7 فیصد کے اوسط سے کم ہوا ہے۔

قومی خاندانی صحت سروے کی رپورٹ کے مطابق ، ملک میں 46 فیصد بچے انیمیا کا شکار ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میںتین سال سے کم عمر کے قریب 47فیصد بچے کم وزن کے شکار ہیں۔اس کی وجہ سے ان کی جسمانی نشو و نما بھی رک گئی ہے۔ ملک کی راجدھانی دہلی میں 33.1 فیصد بچے انیمیا کی لپیٹ میں ہیں، جبکہ مدھیہ پردیش میں 60.3 فیصد، جھارکھنڈ میں 59.2 فیصد ، بہار میں 58 فیصد، چھتیس گڑھ میں 52.2 فیصد، اڑیسہ میں 44 فیصد، راجستھان میں 44 فیصد، ہریانہ میں 41.9 فیصد، مہاراشٹر میں 39.7 فیصد ،اتراکھنڈ میں 38 فیصدی، جموں و کشمیر میں 29.4 فیصد اور پنجاب میں 27 فیصد بچے  انیمیا کی زد میں ہیں۔یونیسیف کے ذریعہ جاری ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے کل انیمیا زدہ بچوں میں سے ایک تہائی آبادی ہندوستانی بچوں کی ہے۔ہندوستان میں پانچ کروڑ 70 لاکھ بچے انیمیا کے شکار ہیں۔ پوری دنیا میں کل 14 کروڑ 60 لاکھ بچے انیمیا کی زد میں ہیں۔ اس اضافے کی موجودہ رفتار ایسی ہی رہی تو 2015 تک انیمیا کا اوسط آدھا کر دینے کا ہدف 2025 تک بھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ رپورٹ میں ہندوستان میں انیمیا کے اوسط کا مقابلہ دیگر ملکوں سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں انیمیا کا اوسط ایتھوپیا ، نیپال اور بنگلہ دیش کے برابر ہے۔ ایتھوپیا میں انیمیا کااوسط 47 فیصد اور نیپال اور بنگلہ دیش میں 48-48 فیصد ہے، جو چین کے آٹھ فیصد، تھائی لینڈ کے 18 فیصد اور افغانستان کے 39
  فیصد کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔
مرکزی حکومت نے غذائی پیداوار میں آئے ٹھہرائو اور بڑھتی آبادی کی غذائی ضروریات کو دھیان میں رکھتے ہوئے اگست 2007  میں مرکز ی اسپانسرڈ غذائی  تحفظ مشن اسکیم شروع کی تھی،اس کا مقصد گیہوں، چاول اور دال کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا، تاکہ ملک میں غذائی تحفظ کی حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔ قومی غذائی تحفظ مشن کے تحت چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے 14 ریاستوں کے 136 ضلعوں کومنتخب کیا گیا ہے۔ ان ریاستوں میں آندھرا پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ ، جھارکھنڈ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، اڑیسہ ، تمل ناڈو، اترپردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ گیہوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 9 ریاستوں کے 141 ضلعوں کو منتخب کیا گیا۔ ان ریاستوں میں پنجاب ، ہریانہ، اتر پردیش ، بہار،  راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات، مہاراشٹر اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ اسی طرح دال کی پیداوار بڑھانے کے لیے14 ریاستوں ، کے 171 ضلعوں کو منتخب کیا گیا۔ ان ریاستوں میں آندھرا پریش، بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر، اڑیسہ راجستھان، تمل ناڈو، پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ان ضلعوں کے 20 ملین ہیکٹیئر دھان کے علاقے، 13 ملین  ہیکٹیئر گیہوں کے علاقے اور 4.5 ملین ہیکٹیئر دال کے علاقے شامل کیے گئے ہیں۔ جو دھان اور گیہوں کے کل بوائی علاقے کا 50 فیصد ہے۔ دال کے لیے مزید 20 فیصدی علاقے تیار کیے جائیں گے۔در اصل بڑھتی مہنگائی نے کم آمدنی والے طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں صرف ٖغذائی تحفظ بل بنانے سے کچھ خاص ہونے والا نہیں  ہے۔ حکومت کو ہر اعتبار سے عوام کی بنیادی سہولتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔

Saturday, May 21, 2011

ہندوستان کا شہزادہ

ہندوستان کا شہزادہ


Monday, April 11, 2011

بدعنوانی ہی انتخابات کا اہم ایشو‎


فردوس خان
بدعنوانیکے ایشونے تمل ناڈو کی سیاست کا پارہ چڑھا دیا ہے۔برسراقتدار پارٹی دروڑ منیتر کشگم (ڈی ایم کے) کے سربراہ اور وزیراعلیٰ ایم کروناندھی بدعنوانی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے قریبی لیڈر اے راجا 2جی اسپیکٹرم گھوٹالے کی بھینٹ چڑھ کر جیل پہنچ گئے ہیں۔ اب ان کی ریمانڈ کی مدت بھی بڑھ گئی ہے۔ راجا کی مہربانی حاصل کرنے والے سوان ٹیلی کام کے مالک اور ڈی بی ریئلٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہد عثمان بلوا کو بھی سی بی آئی گرفتار کر چکی ہے۔ بلوا کی ڈی بی ریئلٹی کمپنی کے ذریعہ تمل چینل کلیگ نار ٹی وی کو 200 کروڑ روپے جاری کیے جانے کے معاملے کی سی بی آئی جانچ کر رہی ہے اور اسی سلسلے میں کنی ماجھی سے پوچھ گچھ کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ گلیگ نار ٹی وی میں کروناندھی کی بڑی حصہ داری ہے، جب کہ کنی ماجھی کی حصہ داری 20 فیصد ہے۔ ان کے بیٹے ایم کے اسٹالن اور ایم کے الاگیری آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اے آئی ایم ڈی ایم کے کی جنرل سکریٹری اور سابق وزیراعلیٰ جے للتاڈی ایم کے کی اقربا پروری، 2جی اسپیکٹرم گھوٹالا، بدعنوانی اور مہنگائی کو انتخابی ایشو بناتے ہوئے عوام سے مضبوط حکومت دینے کا وعدہ کر رہی ہیں۔ جب کہ ایم کروناندھی پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے ذریعہ سستا اناج دینے، ہر غریب کنبہ کو مفت رنگین ٹیلی ویژن دینے اور ترقیاتی کام کرنے کے نام پر عوامی حمایت حاصل کرنے کی قواعد میں مصروف ہیں۔ جے للتا یہ مان کر چل رہی ہیں کہ لیفٹ سے لے کر ایم ڈی ایم کے اور وجے کانت کے مضبوط اتحاد کو انتخاب میں کامیابی ملے گی۔ اے راجا کی گرفتاری سے بدعنوانی مخالف مہم کو قوت ملی ہے۔ حالانکہ ان پر بھی بدعنوانی کے کئی معاملے چل رہے ہیں، جن میں کروڑوں روپے کے رنگین اسکیم، تانسی زمین گھوٹالہ اور آمدنی سے زیادہ جائیداد کے معاملے شامل ہیں۔ جب وہ وزیراعلیٰ بنی تھیں تب ان کے پاس 2.61 کروڑ روپے کی جائیدادتھی اور ان کی مدت کار میں یہ جائیداد بڑھ کر تقریباً 70 کروڑ کی ہو گئی۔ تمل ناڈو میں ایم کروناندھی کی قیادت میں ڈی ایم کے-کانگریس اتحاد، جے للتا کا اے ڈی ایم کے-ایم ڈی ایم کے، وجے کانت کے ڈی ایم ڈی کے کا اتحاد اور ڈاکٹر رام دوس کی قیادت میں پٹالی مکل کاچی(پی ایم کے) اور بی جے پی وغیرہ انتخابی میدان میں ہیں۔ انتخاب جیتنے کی غرض سے سیاسی پارٹیاں ناراض پارٹیوں کو راضی کرنے میں کوئی بھی کمی نہیںچھوڑ رہی ہیں۔ اکھل بھارتیہ انا دروڑ منیتر کشگم(اے ڈی ایم کے) سے الگ ہوئے مروملارچی دروڑ منیتر کشگم(ایم ڈی ایم کے) کو لبھانے کی کوشش کرتے ہوئے ایم کروناندھی نے اپنی پارٹی کی قیادت والے اتحاد کو تمل ناڈو میں اسمبلی انتخاب میں جیتنے کے لیے تمام دروڑ پارٹیوں سے ایک اسٹیج پر آنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے مراسولی میں لکھا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جو پارٹی الگ تھلگ ہو گئی ہیں، جو پارٹی دیگر پارٹیوں سے بچھڑ گئی ہیں اور جنہوں نے خود کو نہیں بیچا وہ تمام ساتھ آئیں۔ ایم ڈی ایم کے لیڈر وائیکو کے اے ڈی ایم کے سے الگ ہونے کے اعلان کے بعد اور ان کے لٹّے کی طرف جھکاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کروناندھی نے کہا کہ ہمیں ٹائیگرس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ ایم ڈی ایم کے اسمبلی کی 234 میں سے 35 سیٹوں پر انتخاب لڑنا چاہتی تھی، جسے کم کر کے 30 کر دیا گیا۔ اس کے بعد اے آئی ایم ڈی ایم کے نے اس میں مزید کمی کرتے ہوئے اسے 6 سیٹوں تک سمیٹ دیا اور مخالفت کرنے پر یہ سیٹیں بڑھا کر 9 کر دی گئیں۔ ایم ڈی ایم کے نے اب 35 کی بجائے 21 سیٹیں مانگیں، لیکن جے للتا نہیں مانیں۔ آخر وائیکو نے انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ پچھلے انتخاب میں کروناندھی نے دو وعدے کیے تھے، پہلا پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت دو روپے کلو چاول دینا اور ایسے ہر گھر کو ایک مفت رنگین ٹیلی ویژن دینا، جس کے پاس ٹی وی نہیں ہے۔ ان وعدوں نے اثر دکھایا اور کروناندھی کو کامیابی ملی۔ کروناندھی نے 50 اور 60 کی دہائی میں تمل آندولن کی قیادت کی اور ایمرجنسی کے دوران جیل بھی گئے۔ انہیں اصول پسند لیڈر کی شکل میں جانا جاتا تھا، لیکن اپنی اولاد کے چکر میں پڑ کر انہوں نے تمام اصولوں کو طاق پر رکھ دیا۔ ڈی ایم کے کے وزراء کو ملائی دار محکمے دلانے کے لیے مرکز کو حمایت واپسی کی دھمکی دینے اور وزارت مواصلات اپنی پارٹی کے پاس رکھنے کی ان کی ضد نے ان کے لالچ کو جگ ظاہر کردیا۔ سیٹوں کے حوالے سے ڈی ایم کے اور کانگریس بھی آمنے سامنے آ گئی تھیں۔ یہاں تک کہ ڈی ایم کے نے یو پی اے حکومت سے اپنے وزراء کو ہٹانے تک کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ڈی ایم کے کانگریس کو 60 سیٹیں دینا چاہتی تھی، لیکن کانگریس کو زیادہ سیٹیں چاہیے تھیں۔ آخر کار ڈی ایم کے کو کانگریس کو 63 سیٹیں دینی پڑیں۔ دراصل کانگریس تمل ناڈو میں اپنا اثر بڑھانا چاہتی ہے۔ گزشتہ دنوں راہل گاندھی نے ریاست میں کئی دورے کیے اور پارٹی کارکنان کو طاقت بڑھانے کے لے کہا تھا۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں کانگریس نے اتنی سیٹوں پر انتخاب نہیں لڑا۔ 1996 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے اے ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد کر کے 64 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے۔ انتخاب میں اتحاد کو سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالانکہ اس کے بعد کانگریس ریاست میں تیسرے درجے کی پارٹی بن گئی، لیکن وہ اپنے دم پر انتخاب لڑنے کی حالت میں نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ڈی ایم کے سیٹوں کے بٹوارے کو لے کر نہیں بلکہ 2جی اسپیکٹرم گھوٹالے کی جانچ کو لے کر یو پی اے سے خفا تھی۔ وہ حکومت اور کانگریس پر دباؤ بنانا چاہتی تھی، لیکن بازی پلٹ گئی۔ سونیا گاندھی کے سخت رخ کے سامنے ڈی ایم کے کی ایک نہ چلی۔ اس کی سمجھ میں آ گیا کہ کانگریس کو اس کی اتنی ضرورت نہیں، جتنی اسے کانگریس کی ہے۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کا سب کچھ داؤ پر لگا ہے، جب کہ کانگریس کے پاس اس کا متبادل موجود ہے۔ ڈی ایم کے کی سیاسی دشمن جے للتا کانگریس سے کہہ چکی ہیں کہ وہ ڈی ایم کے کے 18 ممبران پارلیمنٹ کی فکر نہ کرے، کیوں کہ حکومت بچانے کے لیے ممبران پارلیمنٹ کو جٹانے کی ذمہ داری ان کی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کانگریس شاید ہی جے للتا پر بھروسہ کرے۔ جے للتا 1991 میں کانگریس کے ساتھ تھیں۔ 1998 میں انہوں کانگریس صدر سونیا گاندھی کو ایک چائے پارٹی دی اور بی جے پی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔ انہوں نے 2001 میں اقتدار حاصل کیا اور بی جے پی سے نزدیکیاں بھی قائم رکھیں۔ انہوں نے کانگریس اور سونیا پر لفظوں کے تیر چلانے شروع کر دیے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جس دن سونیا گاندھی ملک کی وزیراعظم بنیںگی، وہ دن ملک کے لیے بہت برا ہوگا۔ مگر سیاست میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب دوست دشمن اور دشمن دوست بن جائے۔ تمل ناڈو کی سیاست میں ایک بار ڈی ایم کے تو دوسری بار اے ڈی ایم کے کی حکومت رہی ہے۔ پہلی بار ڈی ایم کے نے کانگریس کی حمایت سے مسلسل دوسری بار اقتدار حاصل کیا ہے۔

Friday, February 04, 2011

!قصوروار مسلمان نہیں ہیں

ہندوستان میں گئو کشی کے سلسلہ میں کئی تحریکیں چلی ہیں اور کئی تحریکیں آج بھی جاری ہیں، لیکن کسی تحریک کو بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان تحریکوں کو عوامی تحریک کی شکل نہیں دی گئی، بلکہ یہ کہنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ زیادہ تر تحریکیں صرف اپنی سیاست چمکانے یا چندے کی وصولیابی تک ہی محدود رہی ہیں۔ الکبیر سلاٹر ہاؤس میں روزانہ ہزاروں گائے کاٹی جاتی ہیں۔ چند سال قبل ہندوتووادی تنظیموں نے اس کے خلاف مہم بھی چھیڑی تھی، لیکن جیسے ہی یہ بات سامنے آئی کہ اس کا مالک مسلمان نہیں، بلکہ غیر مسلم ہے تو اس مہم کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ گئوکشی سے سب سے بڑا فائدہ گائے کے اسمگلروں اور گائے کے چمڑے کا کار و بار کرنے والے بڑے کار و باریوں کو ہی ہوتا ہے۔ ان طبقات کے دباؤ کے سبب ہی حکومت پابندی لگانے سے گریز کرتی ہے۔ ورنہ دوسری کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ جس ملک میں گائے کی ماں کی شکل میں پرستش کی جاتی ہو، وہاں کی حکومت گئو کشی کو روکنے میں ناکام ہے۔

غور طلب ہے کہ ملک میں بڑے پیمانے پر گئوکشی ہوتی ہے۔ یہ سب گائے کے گوشت اور اس کی باقیات کے لیے ہی کیا جاتا ہے، جس سے بھاری منافع ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں گوشت کے لیے گایوں کو اسمگلروں کے ذریعہ پڑوسی ممالک میں بھیجا جاتا ہے۔ اس سب کی وجہ سے ایک ارب سے زیادہ کی آبادی والے ملک میں دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد محض 16 کروڑ ہے۔ مرکزی حکومت کے ڈپارٹمنٹ آف اینمل ہسبینڈری کے مطابق 1951 میں 40 کروڑ کی آبادی پر 15 کروڑ 53 لاکھ جانور تھے۔ اسی طرح 1962 میں 93 کروڑ کی آبادی پر 20 کروڑ 45 لاکھ، 1977 میں 19 کروڑ 47 لاکھ، 2003 میں 18 کروڑ 51 لاکھ، 80 ہزار جانور بچے تھے اور 2009 میں یہ تعداد کم ہو کر محض 16 کروڑ ہی رہ گئی۔ محکمہ مویشی کے مطابق اترپردیش میں 314 مذبح خانے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں جانور کم ہو رہے ہیں۔ کیرالا میں 2002 میں ایک لاکھ 11 ہزار 665 دودھ دینے والے جانور تھے، جو 2003 میں کم ہو کر 64 ہزار 618 رہ گئے۔ راجدھانی دہلی میں 19.13 فیصد دودھ دینے والے جانور کم ہوئے ہیں، جب کہ گایوں کی شرح 38.63 فیصد کم ہوئی ہے۔ یہاں محض 6ہزار 539 گائے ہیں، جب کہ دو لاکھ تین ہزار بھینس ہیں۔ میزورم میں 34 ہزار 988 گائے اور سانڈ ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے 1.60 فیصد کم ہیں۔ تمل ناڈو میں 55 لاکھ 93 ہزار 485 بھینسیں ہیں، جب کہ 16 لاکھ 58 ہزار 415 گائے ہیں۔

حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ گئوکشی پر پابندی لگانے کی مانگ طویل عرصے سے چل رہی ہے، اس کے باوجود ابھی تک اس پر کوئی خاص عمل نہیں کیا گیا، جب کہ مسلم دور حکومت میں گئوکشی پر سخت پابندی تھی۔ قابل غور ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکومت کے دوران کہیں بھی گئوکشی کے سلسلہ میں ہندو اور مسلمانوں میں تصادم کا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اپنے دور حکومت کے آخری سال میں جب مغل بادشاہ بابر بیمار ہوگیا تو اس کے خلیفہ نظام الدین کے حکم پر سپہ سالار میر باقی نے عوام کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ جب اس کی خبر بابر تک پہنچی تو انہوں نے کابل میں قیام پذیراپنے بیٹے ہمایوں کو ایک خط لکھا۔ بابرنامے میں درج اس خط کے مطابق بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا:

ہماری بیماری کے دوران وزراء نے نظام حکومت بگاڑ دیا ہے، جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے چہرے پر سیاہی پوت دی گئی ہے، جسے خط میں نہیں لکھا جاسکتا۔ تم یہاں آؤ گے اور اللہ کو منظور ہوگا تب روبرو ہو کر کچھ بتا پاؤںگا۔ اگر ہماری ملاقات اللہ کو منظور نہ ہوئی تو کچھ تجربے لکھ دیتا ہوں جو ہمیں نظم حکومت کی بدحالی سے حاصل ہوئے ہیں، جو تمہارے کام آئیںگے۔

1- تمہاری زندگی میں مذہبی امتیاز کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ تمہیں بلاتفریق مذہب و ملت انصاف کرنا چاہیے۔ عوام کے تمام طبقات کے مذہبی جذبات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔

2 - تمہیں گئوکشی سے دور رہنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے تم ہندوستان کے عوام میں محبوب رہوگے۔ اس ملک کے لوگ تمہارے شکر گزار رہیںگے اور تمہارے ساتھ ان کا رشتہ بھی مضبوط ہوجائے گا۔

3 – تم کسی فرقے کے مذہبی مقام کو نہ گرانا، ہمیشہ انصاف کرنا، جس سے بادشاہ اور رعایا کا تعلق بہتر بنا رہے اور ملک میں بھی امن چین قائم رہے۔

احادیث میں بھی گائے کے دودھ کو فائدے مند اور گوشت کو نقصان دہ بتایا گیا ہے۔

1 - ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گائے کا دودھ اور گھی فائدے مند ہے اور گوشت بیماری پیدا کرتا ہے۔

2 - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گائے کا دودھ فائدے مند ہے، گھی علاج ہے اور گوشت سے بیماری بڑھتی ہے۔(امام طبرانی و حیات الحیوان)

3 - نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم گائے کے دودھ اور گھی کا استعمال کیا کرو اور گوشت سے بچو، کیوں کہ اس کا دودھ اور گھی فائدے مند ہے اور اس کے گوشت سے بیماری پیدا ہوتی ہے۔(ابن مسعودؓ، حیات الحیوان)

4 - نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ نے دنیا میں جو بھی بیماریاں اتاری ہیں، ان میں سے ہر ایک کا علاج بھی دیا ہے، جو اس سے انجان ہے وہ انجان ہی رہے گا۔ جو جانتا ہے وہ جانتا ہی رہے گا۔ گائے کے گھی سے زیادہ صحت بخش کوئی چیز نہیں ہے۔(عبداللہ ابن مسعود حیات الحیوان)

قرآن میں کئی آیتیں ایسی ہیں، جن میں دودھ اور اون دینے والے جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے۔

ہندوستان میں گائے کشی کو فروغ دینے میں انگریزوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جب 1700 میں انگریز ہندوستان میں تاجر بن کر آئے تھے، اس وقت تک یہاں گائے اور خنزیر کو ہلاک نہیں کیا جاتا تھا۔ ہندوگائے کو قابل پرستش مانتے تھے اور مسلمان خنزیر کا نام تک لینا پسند نہیں کرتے، لیکن انگریز ان دونوں ہی جانوروں کے گوشت کا استعمال بڑے شوق سے کرتے تھے۔ انگریزوں کو ان دونوں ہی جانوروں کے گوشت کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ وہ ہندوستان پر بھی قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو بھڑکایا کہ قرآن میں کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ گائے کی قربانی حرام ہے۔ اس لیے انہیں گائے کی قربانی کرنی چاہیے۔ انہوں نے مسلمانوں کو لالچ بھی دیا اور کچھ لوگ ان کے جھانسے میں آگئے۔ اسی طرح انہوں نے دلت ہندوؤں کو خنزیر کے گوشت کی فروخت کر کے موٹی رقم کمانے کا جھانسہ دیا۔ غور طلب ہے کہ یوروپ دو ہزار برسوں سے گائے کے گوشت کا خاص صارف رہا ہے۔ ہندوستان میں بھی اپنی آمد کے ساتھ ہی انگریزوں نے یہاں گئوکشی شروع کرا دی۔ 18 ویں صدی کے آخر تک بڑے پیمانے پر گئو کشی ہونے لگی۔ یوروپ کی ہی طرز پر انگریزوں کی بنگال، مدراس اور بمبئی پریسیڈنسی فوج کے محکمہ رسد نے پورے ملک میں قصائی خانے بنوائے۔ جیسے جیسے ہندوستان میں انگریزی فوج اور افسران کی تعداد بڑھنے لگی ویسے ویسے ہی گئو کشی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

خاص بات یہ رہی کہ گئو کشی اور خنزیر کشی سے انگریزوں کو ہندو اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کا بھی موقع مل گیا۔ اسی دوران ہندو تنظیموں نے گئوکشی کے خلاف مہم چھیڑ دی۔ آخر کار مہارانی وکٹوریہ نے وائسرائے لینس ڈاؤن کو خط لکھا۔ خط میں مہارانی نے کہا: حالانکہ مسلمانوں کے ذریعہ کی جارہی گئوکشی تحریک کا سبب بنی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ہمارے خلاف ہے، کیوں کہ مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہم گئوکشی کراتے ہیں۔ اس کے ذریعہ ہی ہمارے فوجیوں کو گائے کا گوشت مہیا ہوپاتا ہے۔

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے بھی 28 جولائی 1857 کو بقرعید کے موقع پر گائے کی قربانی نہ کرنے کا فرمان جاری کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی انتباہ دیا تھا کہ جو بھی گئو کشی کرنے یا کرانے کا مجرم پایا جائے گا، اسے موت کی سزا دی جائے گی۔ اس کے بعد 1892 میں ملک کے مختلف حصوں سے حکومت کو دستخط شدہ خط بھیج کر گئوکشی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ ان خطوط پر ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کے بھی دستخط ہوتے تھے۔ ا س وقت بھی ملک گیر مہم چلائی جارہی ہے، جس میں مرکزی حکومت سے گائے کو قومی جانور قرار دینے اور گائے کی نسل کی حفاظت کے لیے سخت قانون بنائے جانے کی مانگ کی جارہی ہے۔

گایوں کے تحفظ کے لیے اپنی جان دینے میں بھی ہندوستانی مسلمان کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اترپردیش کے سہارنپور ضلع کے گاؤں نگلا کے ڈاکٹر راشد علی نے گائے اسمگلروں کے خلاف مہم چھیڑ رکھی تھی، جس کے سبب 20 اکتوبر 2003 کو ان پر جان لیوا حملہ کیا گیا اور ان کی موت ہوگئی۔ انہوں نے 1998 میں گایوں کے تحفظ کا حلف لیا تھا اور تب سے ڈاکٹری کا پیشہ چھوڑ کر اپنی مہم میں جٹ گئے تھے۔

گئوکشی کو روکنے کے لیے مختلف مسلم تنظیمیں بھی سامنے آئی ہیں۔ دارالعلوم دیوبند نے ایک فتویٰ جاری کر کے مسلمانوں سے گئوکشی نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ شعبۂ افتاء دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی حبیب الرحمن کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں گائے کو ماں کی شکل میں پوجا جاتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے گئوکشی سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شریعت کسی ملک کے قانون کو توڑنے کی حمایت نہیں کرتی۔ قابل غور ہے کہ اس فتوے کی پاکستان میں سخت تنقید کی گئی تھی۔ اس کے بعد ہندوستان میں بھی اس فتوے کے حوالے سے خاموشی اختیار کر لی گئی۔

گائے ہندوستانی دیہی اقتصادیات کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کے علاوہ گائے کی ملک میں پوجا بھی کی جاتی ہے۔ یہ ہندوستانی ثقافت سے جڑی ہے۔ مہاتما گاندھی کہتے تھے کہ اگر بے لوث جذبہ سے خدمت کی بہترین مثال کہیں دیکھنے کو ملتی ہے تو وہ گئوماں ہے۔ گائے کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ گئو ماتا جنم دینے والی ماں سے اہم ہے۔ ہماری ماں ہمیں دو سال دودھ پلاتی ہے اور یہ امید کرتی ہے کہ ہم بڑے ہوکر اس کی خدمت کریںگے۔ گائے ہم سے چارے اور دانے کے علاوہ کسی اور چیز کی امید نہیں کرتی۔ ہماری ماں ہم سے خدمت کی توقع کرتی ہے۔ گئو ماتا شاید ہی کبھی بیمار پڑتی ہے۔ گئو ماتا ہماری خدمت تاعمر ہی نہیں کرتی، بلکہ مرنے کے بعد بھی کرتی ہے۔ اپنی ماں کی موت ہونے پر ہمیں اس کی آخری رسوم اداکرنے پر بھی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ گئو ماتا مر جانے پر بھی اتنی ہی مفید ثابت ہوتی ہے جتنی اپنی زندگی میں تھی۔ ہم اس کے جسم کے اجزا، آنتیں، سینگ اور چمڑے کا استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ بات میں جنم دینے والی ماں کی مذمت کے خیال سے نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ یہ دکھانے کے لیے کہہ رہا ہوں کہ میں گائے کی پوجا کیوں کرتا ہوں؟

غور طلب ہے کہ اتراکھنڈ ملک کا ایسا پہلاصوبہ ہے، جہاں حکومت نے گئوکشی ایکٹ میں ترمیم کر کے دس سال سزا کی تجویز کیہے۔ گزشتہ سال پنجاب میں گئو سیوا بورڈ نے گئوکشی کو روکنے کے لیے گئو کشی کرنے والوں کو دس سال کی سزا کی تجویز بنا کر وزیراعلیٰ کے پاس کابینہ کی منظوری کے لیے بھیجا تھا۔ اسے اسمبلی سے منظوری ملنے کے بعد گورنر کو بھیجا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ گئو سیوا بورڈ کی تجویز میں راجاؤں کے ذریعہ گایوں کی خدمت کے لیے دان دی گئی زمینوں کو اراضی مافیاؤں کے قبضے سے چھڑانے، سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کے گئودھن سے متعلق حکم کو نافذ کرنا بھی شامل ہے۔ حکومت جموں و کشمیر نے بھی گئوکشی اور اس کی اسمگلنگ روکنے کے لیے سخت قدم اٹھائے ہیں۔

دراصل ہندوستان میں گئوکشی کو روکنے کے لیے ایمانداری سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان تو گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دیںگے، لیکن گائے کے چمڑے کا کار و بار کرنے والے کیا گئوکشی ترک کرکے موٹی کمائی کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گئو کشی سے سب سے زیادہ فائدہ غیرمسلموں کو ہے اور انہی کے دباؤ میں حکومت گئوکشی پر پابندی نہیں لگانا چاہتی۔ گئوکشی کے لیے ذمہ دار بڑے کارو باریوں کے خلاف بولنے کی کسی کی ہمت نہیں۔ حالانکہ گئوکشی کو لے کر اکثر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتاہے، جب کہ وہ صرف چھوٹی مچھلیاں ہیں۔