Friday, March 08, 2013

اعلانات تو ہو گئے، عمل کب ہوگا؟‎


فردوس خان
 سرکار ہر سال بجٹ کے دوران متعدد اعلانات کرتی ہے، لیکن زیادہ تر اعلانات پر ٹھیک ڈھنگ سے عمل نہیں ہو پاتا اور آخرکار ایک دن وہ کاغذوں میں ہی دم توڑ دیتے ہیں اور جن اعلانات پر کام ہوتا ہے، ان کا فائدہ ضرورت مند لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پاتا ہے۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات تک ہی محدود رہتا ہے۔ حالانکہ اس دفعہ سرکار نے لگاتار بڑھتی مہنگائی اور سلنڈروں کی محدود تعداد سے پریشان عورتوں کو کچھ راحت دینے کی کوشش کی ہے۔ سرکار نے بڑے ووٹ بینک یعنی عورتوں، نوجوانوں اور غریبوں سے تین وعدے کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورتوں کی عزت اور حفاظت کو یقینی بنانا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہم لڑکیوں اور عورتوں کو مضبوط اور محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ عورتوں کے لیے 97134 کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ یہ پیسہ کئی اسکیموں کے توسط سے خرچ کیا جائے گا۔

دراصل، آٹھویں بار بجٹ پیش کر رہے پی چدمبرم نے اپنی تقریر کی شروعات میں ہی کہہ دیا تھا کہ ہر طبقے پر دھیان دینا ضروری ہے۔ درج فہرست ذات اور قبائل اور اقلیتی طبقہ کے لوگ پیچھے چھوٹے ہوئے ہیں۔ ہم عورتوں میں سبھی کی ترقی چاہتے ہیں۔ ملک میں پہلا خواتین بینک کھولا جائے گا۔ یہ بینک عورتوں کے لیے ہی ہوگا۔ خواتین صارفین کی مدد کے لیے شروع کیے جانے والے اس بینک کو عورتیں ہی چلائیں گی۔ اس کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہ بینک کتنا کامیاب ہوگا، اس وقت کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگا۔ آج جب عورتیں مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کر رہی ہیں اور کرنا چاہتی ہیں، ایسے میں عورتوں کے لیے الگ بینک کے جواز پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ بعض عورتوں کا ماننا ہے کہ ملک میں اس قسم کی شروعات کا دل سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے، کیوں کہ اس سے عورتوں میں خود اعتمادی بڑھے گی۔ لوگ اپنی بہن بیٹیوں کو پڑھانے اور انہیں با اختیار بنانے کے لیے بھی آگے آئیں گے۔ آج کے دور میں جب عورتوں کو کام کرنے کی جگہ پر اپنے مرد ساتھیوں کی گندی حرکتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے میں خواتین بینک ان کے لیے بہتر متبادل ثابت ہوں گے۔ قابل ذکر ہے کہ پہلے بھی بینکوں کی خواتین برانچ کھولنے کی کوششیں ہوئی ہیں، لیکن سیکورٹی کے مد نظر وہ کامیاب نہیں ہو پائیں۔ دراصل، سرکار خواتین بینک کے نام پر عورتوں کے ووٹ بینک پر نشانہ لگا رہی ہے، شاید اس لیے، کیوں کہ ملک کی تقریباً آدھی آبادی عورتوں کی ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ جس وقت وزیر خزانہ خواتین بینک بنانے کا اعلان کر رہے تھے، اس وقت یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی اور حزب اختلاف کی لیڈر سشما سوراج دھیرے دھیرے مسکرا رہی تھیں۔ دراصل، سونیا گاندھی کی مسکراہٹ سے لگ رہا تھا کہ عورتوں کے لیے کیے گئے اعلانات ان کے ایجنڈے کا حصہ ہیں، کیوں کہ پچھلے کافی دنوں سے وہ خواتین کی فلاح و بہبود پر خاصا زور دے رہی ہیں۔ حالانکہ سشما سوراج کو باوجود اس کے لگتا ہے کہ اس بجٹ میں عورتوں کے مفاد کی اندیکھی کی گئی ہے۔ سرکار نے خواتین بینک کا اعلان کرکے عورتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔

دہلی میں اجتماعی عصمت دری کی واردات ہونے کے بعد تنقیدوں سے گھری سرکار عورتوں کی حفاظت کے مدعے پر سنجیدہ نظر آئی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ عورتیں، نوجوان اور غریب ہندوستانی سماج کا چہرہ ہیں۔ عورتوں کی سیکورٹی کے لیے نربھے فنڈ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک ہزار کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔ کام کرنے والی عورتوں کی سیکورٹی کے لیے بنا یہ فنڈ غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والی عورتوں کی سیکورٹی پر بھی خرچ کیا جائے گا۔ اس دفعہ کے بجٹ میں عورتوں کی ترقی اور بہبود کے لیے دو ہزار کروڑ روپے الگ سے مختص کیے گئے ہیں۔ حاملہ عورتوں کے لیے 300 کروڑ روپے، اکیلی اور بیوہ عورتوں کے لیے 200 کروڑ اور ایس سی، ایس ٹی طالبات کے لیے 700 کروڑ روپے کے بجٹ کا انتظام کیا گیا ہے۔ اگر صرف وزارتِ خواتین و بہبود اطفال کے بجٹ پر نظر ڈالیں، تو اسے پچھلے سال 18500 کروڑ روپے ملے تھے، جب کہ اس سال 19450 کروڑ روپے ملے ہیں۔ لڑکیوں اور عورتوں کو با اختیار بنانے کے لیے راجیو گاندھی یوجنا کے تحت 650 کروڑ اور اندرا میترتو سہیوگ یوجنا کے تحت 500 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ایکی کرت بال سنرکشن یوجنا کے تحت 300 کروڑ روپے اور راشٹریہ پوشاہار مشن کے تحت بھی 300 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ قابل غور یہ بھی ہے کہ ملک میں پہلے سے ہی کئی اسکیمیں چل رہی ہیں، لیکن وہ بدعنوانی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ وزیر خزانہ نے ان اسکیموں میں شفافیت لانے کی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ اسی طرح ان اسکیموں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف لاکھوں لوگوں پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا۔ مثلاً، ملک میں تقریباً 27 لاکھ آنگن واڑی کارکن کام کر رہی ہیں۔ ان کے اپنے مسائل ہیں، جنہیں لے کر وہ وقت وقت پر تحریک بھی چلاتی رہی ہیں، لیکن اس طرف بھی سرکار نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ اب ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان اسکیموں کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے مضبوط کڑی کا کام تو یہی لوگ کرتے ہیں اور اگر ان کی ہی حالت ٹھیک نہیں ہوگی، تو اسکیموں کی صحت کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔

سرکار نے عورتوں کی زیوروں سے محبت کو دیکھتے ہوئے انہیں ایک تحفہ یہ بھی دیا ہے کہ اب وہ غیر ملکوں سے ایک لاکھ روپے تک کی قیمت کے سونے کے زیورات اپنے ساتھ لا سکتی ہیں، جو ڈیوٹی فری ہوں گے، جب کہ مردوں کے لیے یہ چھوٹ 50 ہزار روپے کے زیورات تک ہے۔ عورتیں بیرونی ممالک سے سونا لانے میں ملی راحت اور جواہرات کے سستا ہونے سے پرجوش ہیں، کیوں کہ زیورات میں تو ان کی جان بستی ہے۔ لڑکیاں برانڈیڈ کپڑے اور غیر ملکی جوتے سستا ہونے سے خوش ہیں، کیوں کہ نوجوانوں میں ہی ان کا چلن زیادہ ہے۔ رسوئی سلنڈروں کی قیمت نہ بڑھنے سے بھی عورتیں خوش نظر آ رہی ہیں، لیکن سرکار سلنڈروں کی قیمت پہلے ہی اتنا زیادہ بڑھا چکی ہے کہ اب گنجائش ہی کہاں بچتی ہے۔

بہرحال، بجٹ پر عام عورتوں کی بھی ملی جلی رائے ہے۔ نوکری پیشہ عورتوں کا کہنا ہے کہ اگر ٹیکس میں کچھ چھوٹ مل جاتی، تو بہتر تھا۔ اس لحاظ سے سرکار نے ہمیں مایوس ہی کیا ہے، لیکن خواتین بینک اور غیر ملک سے سونا لانے پر کسٹم ڈیوٹی میں ملی چھوٹ کا کچھ خواتین نے خیر مقدم کیا ہے۔