Friday, February 04, 2011

!قصوروار مسلمان نہیں ہیں

ہندوستان میں گئو کشی کے سلسلہ میں کئی تحریکیں چلی ہیں اور کئی تحریکیں آج بھی جاری ہیں، لیکن کسی تحریک کو بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان تحریکوں کو عوامی تحریک کی شکل نہیں دی گئی، بلکہ یہ کہنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ زیادہ تر تحریکیں صرف اپنی سیاست چمکانے یا چندے کی وصولیابی تک ہی محدود رہی ہیں۔ الکبیر سلاٹر ہاؤس میں روزانہ ہزاروں گائے کاٹی جاتی ہیں۔ چند سال قبل ہندوتووادی تنظیموں نے اس کے خلاف مہم بھی چھیڑی تھی، لیکن جیسے ہی یہ بات سامنے آئی کہ اس کا مالک مسلمان نہیں، بلکہ غیر مسلم ہے تو اس مہم کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ گئوکشی سے سب سے بڑا فائدہ گائے کے اسمگلروں اور گائے کے چمڑے کا کار و بار کرنے والے بڑے کار و باریوں کو ہی ہوتا ہے۔ ان طبقات کے دباؤ کے سبب ہی حکومت پابندی لگانے سے گریز کرتی ہے۔ ورنہ دوسری کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ جس ملک میں گائے کی ماں کی شکل میں پرستش کی جاتی ہو، وہاں کی حکومت گئو کشی کو روکنے میں ناکام ہے۔

غور طلب ہے کہ ملک میں بڑے پیمانے پر گئوکشی ہوتی ہے۔ یہ سب گائے کے گوشت اور اس کی باقیات کے لیے ہی کیا جاتا ہے، جس سے بھاری منافع ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں گوشت کے لیے گایوں کو اسمگلروں کے ذریعہ پڑوسی ممالک میں بھیجا جاتا ہے۔ اس سب کی وجہ سے ایک ارب سے زیادہ کی آبادی والے ملک میں دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد محض 16 کروڑ ہے۔ مرکزی حکومت کے ڈپارٹمنٹ آف اینمل ہسبینڈری کے مطابق 1951 میں 40 کروڑ کی آبادی پر 15 کروڑ 53 لاکھ جانور تھے۔ اسی طرح 1962 میں 93 کروڑ کی آبادی پر 20 کروڑ 45 لاکھ، 1977 میں 19 کروڑ 47 لاکھ، 2003 میں 18 کروڑ 51 لاکھ، 80 ہزار جانور بچے تھے اور 2009 میں یہ تعداد کم ہو کر محض 16 کروڑ ہی رہ گئی۔ محکمہ مویشی کے مطابق اترپردیش میں 314 مذبح خانے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں جانور کم ہو رہے ہیں۔ کیرالا میں 2002 میں ایک لاکھ 11 ہزار 665 دودھ دینے والے جانور تھے، جو 2003 میں کم ہو کر 64 ہزار 618 رہ گئے۔ راجدھانی دہلی میں 19.13 فیصد دودھ دینے والے جانور کم ہوئے ہیں، جب کہ گایوں کی شرح 38.63 فیصد کم ہوئی ہے۔ یہاں محض 6ہزار 539 گائے ہیں، جب کہ دو لاکھ تین ہزار بھینس ہیں۔ میزورم میں 34 ہزار 988 گائے اور سانڈ ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے 1.60 فیصد کم ہیں۔ تمل ناڈو میں 55 لاکھ 93 ہزار 485 بھینسیں ہیں، جب کہ 16 لاکھ 58 ہزار 415 گائے ہیں۔

حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ گئوکشی پر پابندی لگانے کی مانگ طویل عرصے سے چل رہی ہے، اس کے باوجود ابھی تک اس پر کوئی خاص عمل نہیں کیا گیا، جب کہ مسلم دور حکومت میں گئوکشی پر سخت پابندی تھی۔ قابل غور ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکومت کے دوران کہیں بھی گئوکشی کے سلسلہ میں ہندو اور مسلمانوں میں تصادم کا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اپنے دور حکومت کے آخری سال میں جب مغل بادشاہ بابر بیمار ہوگیا تو اس کے خلیفہ نظام الدین کے حکم پر سپہ سالار میر باقی نے عوام کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ جب اس کی خبر بابر تک پہنچی تو انہوں نے کابل میں قیام پذیراپنے بیٹے ہمایوں کو ایک خط لکھا۔ بابرنامے میں درج اس خط کے مطابق بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا:

ہماری بیماری کے دوران وزراء نے نظام حکومت بگاڑ دیا ہے، جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے چہرے پر سیاہی پوت دی گئی ہے، جسے خط میں نہیں لکھا جاسکتا۔ تم یہاں آؤ گے اور اللہ کو منظور ہوگا تب روبرو ہو کر کچھ بتا پاؤںگا۔ اگر ہماری ملاقات اللہ کو منظور نہ ہوئی تو کچھ تجربے لکھ دیتا ہوں جو ہمیں نظم حکومت کی بدحالی سے حاصل ہوئے ہیں، جو تمہارے کام آئیںگے۔

1- تمہاری زندگی میں مذہبی امتیاز کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ تمہیں بلاتفریق مذہب و ملت انصاف کرنا چاہیے۔ عوام کے تمام طبقات کے مذہبی جذبات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔

2 - تمہیں گئوکشی سے دور رہنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے تم ہندوستان کے عوام میں محبوب رہوگے۔ اس ملک کے لوگ تمہارے شکر گزار رہیںگے اور تمہارے ساتھ ان کا رشتہ بھی مضبوط ہوجائے گا۔

3 – تم کسی فرقے کے مذہبی مقام کو نہ گرانا، ہمیشہ انصاف کرنا، جس سے بادشاہ اور رعایا کا تعلق بہتر بنا رہے اور ملک میں بھی امن چین قائم رہے۔

احادیث میں بھی گائے کے دودھ کو فائدے مند اور گوشت کو نقصان دہ بتایا گیا ہے۔

1 - ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گائے کا دودھ اور گھی فائدے مند ہے اور گوشت بیماری پیدا کرتا ہے۔

2 - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گائے کا دودھ فائدے مند ہے، گھی علاج ہے اور گوشت سے بیماری بڑھتی ہے۔(امام طبرانی و حیات الحیوان)

3 - نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم گائے کے دودھ اور گھی کا استعمال کیا کرو اور گوشت سے بچو، کیوں کہ اس کا دودھ اور گھی فائدے مند ہے اور اس کے گوشت سے بیماری پیدا ہوتی ہے۔(ابن مسعودؓ، حیات الحیوان)

4 - نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ نے دنیا میں جو بھی بیماریاں اتاری ہیں، ان میں سے ہر ایک کا علاج بھی دیا ہے، جو اس سے انجان ہے وہ انجان ہی رہے گا۔ جو جانتا ہے وہ جانتا ہی رہے گا۔ گائے کے گھی سے زیادہ صحت بخش کوئی چیز نہیں ہے۔(عبداللہ ابن مسعود حیات الحیوان)

قرآن میں کئی آیتیں ایسی ہیں، جن میں دودھ اور اون دینے والے جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے۔

ہندوستان میں گائے کشی کو فروغ دینے میں انگریزوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جب 1700 میں انگریز ہندوستان میں تاجر بن کر آئے تھے، اس وقت تک یہاں گائے اور خنزیر کو ہلاک نہیں کیا جاتا تھا۔ ہندوگائے کو قابل پرستش مانتے تھے اور مسلمان خنزیر کا نام تک لینا پسند نہیں کرتے، لیکن انگریز ان دونوں ہی جانوروں کے گوشت کا استعمال بڑے شوق سے کرتے تھے۔ انگریزوں کو ان دونوں ہی جانوروں کے گوشت کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ وہ ہندوستان پر بھی قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو بھڑکایا کہ قرآن میں کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ گائے کی قربانی حرام ہے۔ اس لیے انہیں گائے کی قربانی کرنی چاہیے۔ انہوں نے مسلمانوں کو لالچ بھی دیا اور کچھ لوگ ان کے جھانسے میں آگئے۔ اسی طرح انہوں نے دلت ہندوؤں کو خنزیر کے گوشت کی فروخت کر کے موٹی رقم کمانے کا جھانسہ دیا۔ غور طلب ہے کہ یوروپ دو ہزار برسوں سے گائے کے گوشت کا خاص صارف رہا ہے۔ ہندوستان میں بھی اپنی آمد کے ساتھ ہی انگریزوں نے یہاں گئوکشی شروع کرا دی۔ 18 ویں صدی کے آخر تک بڑے پیمانے پر گئو کشی ہونے لگی۔ یوروپ کی ہی طرز پر انگریزوں کی بنگال، مدراس اور بمبئی پریسیڈنسی فوج کے محکمہ رسد نے پورے ملک میں قصائی خانے بنوائے۔ جیسے جیسے ہندوستان میں انگریزی فوج اور افسران کی تعداد بڑھنے لگی ویسے ویسے ہی گئو کشی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

خاص بات یہ رہی کہ گئو کشی اور خنزیر کشی سے انگریزوں کو ہندو اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کا بھی موقع مل گیا۔ اسی دوران ہندو تنظیموں نے گئوکشی کے خلاف مہم چھیڑ دی۔ آخر کار مہارانی وکٹوریہ نے وائسرائے لینس ڈاؤن کو خط لکھا۔ خط میں مہارانی نے کہا: حالانکہ مسلمانوں کے ذریعہ کی جارہی گئوکشی تحریک کا سبب بنی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ہمارے خلاف ہے، کیوں کہ مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہم گئوکشی کراتے ہیں۔ اس کے ذریعہ ہی ہمارے فوجیوں کو گائے کا گوشت مہیا ہوپاتا ہے۔

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے بھی 28 جولائی 1857 کو بقرعید کے موقع پر گائے کی قربانی نہ کرنے کا فرمان جاری کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی انتباہ دیا تھا کہ جو بھی گئو کشی کرنے یا کرانے کا مجرم پایا جائے گا، اسے موت کی سزا دی جائے گی۔ اس کے بعد 1892 میں ملک کے مختلف حصوں سے حکومت کو دستخط شدہ خط بھیج کر گئوکشی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ ان خطوط پر ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کے بھی دستخط ہوتے تھے۔ ا س وقت بھی ملک گیر مہم چلائی جارہی ہے، جس میں مرکزی حکومت سے گائے کو قومی جانور قرار دینے اور گائے کی نسل کی حفاظت کے لیے سخت قانون بنائے جانے کی مانگ کی جارہی ہے۔

گایوں کے تحفظ کے لیے اپنی جان دینے میں بھی ہندوستانی مسلمان کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اترپردیش کے سہارنپور ضلع کے گاؤں نگلا کے ڈاکٹر راشد علی نے گائے اسمگلروں کے خلاف مہم چھیڑ رکھی تھی، جس کے سبب 20 اکتوبر 2003 کو ان پر جان لیوا حملہ کیا گیا اور ان کی موت ہوگئی۔ انہوں نے 1998 میں گایوں کے تحفظ کا حلف لیا تھا اور تب سے ڈاکٹری کا پیشہ چھوڑ کر اپنی مہم میں جٹ گئے تھے۔

گئوکشی کو روکنے کے لیے مختلف مسلم تنظیمیں بھی سامنے آئی ہیں۔ دارالعلوم دیوبند نے ایک فتویٰ جاری کر کے مسلمانوں سے گئوکشی نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ شعبۂ افتاء دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی حبیب الرحمن کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں گائے کو ماں کی شکل میں پوجا جاتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے گئوکشی سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شریعت کسی ملک کے قانون کو توڑنے کی حمایت نہیں کرتی۔ قابل غور ہے کہ اس فتوے کی پاکستان میں سخت تنقید کی گئی تھی۔ اس کے بعد ہندوستان میں بھی اس فتوے کے حوالے سے خاموشی اختیار کر لی گئی۔

گائے ہندوستانی دیہی اقتصادیات کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کے علاوہ گائے کی ملک میں پوجا بھی کی جاتی ہے۔ یہ ہندوستانی ثقافت سے جڑی ہے۔ مہاتما گاندھی کہتے تھے کہ اگر بے لوث جذبہ سے خدمت کی بہترین مثال کہیں دیکھنے کو ملتی ہے تو وہ گئوماں ہے۔ گائے کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ گئو ماتا جنم دینے والی ماں سے اہم ہے۔ ہماری ماں ہمیں دو سال دودھ پلاتی ہے اور یہ امید کرتی ہے کہ ہم بڑے ہوکر اس کی خدمت کریںگے۔ گائے ہم سے چارے اور دانے کے علاوہ کسی اور چیز کی امید نہیں کرتی۔ ہماری ماں ہم سے خدمت کی توقع کرتی ہے۔ گئو ماتا شاید ہی کبھی بیمار پڑتی ہے۔ گئو ماتا ہماری خدمت تاعمر ہی نہیں کرتی، بلکہ مرنے کے بعد بھی کرتی ہے۔ اپنی ماں کی موت ہونے پر ہمیں اس کی آخری رسوم اداکرنے پر بھی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ گئو ماتا مر جانے پر بھی اتنی ہی مفید ثابت ہوتی ہے جتنی اپنی زندگی میں تھی۔ ہم اس کے جسم کے اجزا، آنتیں، سینگ اور چمڑے کا استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ بات میں جنم دینے والی ماں کی مذمت کے خیال سے نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ یہ دکھانے کے لیے کہہ رہا ہوں کہ میں گائے کی پوجا کیوں کرتا ہوں؟

غور طلب ہے کہ اتراکھنڈ ملک کا ایسا پہلاصوبہ ہے، جہاں حکومت نے گئوکشی ایکٹ میں ترمیم کر کے دس سال سزا کی تجویز کیہے۔ گزشتہ سال پنجاب میں گئو سیوا بورڈ نے گئوکشی کو روکنے کے لیے گئو کشی کرنے والوں کو دس سال کی سزا کی تجویز بنا کر وزیراعلیٰ کے پاس کابینہ کی منظوری کے لیے بھیجا تھا۔ اسے اسمبلی سے منظوری ملنے کے بعد گورنر کو بھیجا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ گئو سیوا بورڈ کی تجویز میں راجاؤں کے ذریعہ گایوں کی خدمت کے لیے دان دی گئی زمینوں کو اراضی مافیاؤں کے قبضے سے چھڑانے، سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کے گئودھن سے متعلق حکم کو نافذ کرنا بھی شامل ہے۔ حکومت جموں و کشمیر نے بھی گئوکشی اور اس کی اسمگلنگ روکنے کے لیے سخت قدم اٹھائے ہیں۔

دراصل ہندوستان میں گئوکشی کو روکنے کے لیے ایمانداری سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان تو گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دیںگے، لیکن گائے کے چمڑے کا کار و بار کرنے والے کیا گئوکشی ترک کرکے موٹی کمائی کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گئو کشی سے سب سے زیادہ فائدہ غیرمسلموں کو ہے اور انہی کے دباؤ میں حکومت گئوکشی پر پابندی نہیں لگانا چاہتی۔ گئوکشی کے لیے ذمہ دار بڑے کارو باریوں کے خلاف بولنے کی کسی کی ہمت نہیں۔ حالانکہ گئوکشی کو لے کر اکثر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتاہے، جب کہ وہ صرف چھوٹی مچھلیاں ہیں۔

0 Comments:

Post a Comment