Wednesday, May 22, 2013

زخم ابھی تازہ ہیں، ٹیس ابھی باقی ہے...


فردوس خان
وقت  بدلا، حالات بدلے، لیکن نہیں بدلیں تو زندگی کی دشواریاں، آنسوئوں کا سیلاب نہیں تھما، اپنوں کے گھر لوٹنے کے انتظار میں پتھرائی آنکھوں کی پلکیں نہیں جھپکیں، اپنوں سے بچھڑنے کی تکلیف سے بے حال دل کو قرار نہ ملا۔ یہی ہے میرٹھ فساد متاثرین کی داستان۔میرٹھ کے ہاشم پورہ میں 22مئی 1987اور ملیانہ گائوں میں23مئی 1987کو حیوانیت کا جو ننگا ناچ ہوا، اس کے نشان آج بھی یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان فسادوں نے یہاں کے باشندوں کی زندگی کو پوری طرح تباہ کر دیا۔ عورتوں کو بیوہ بنا دیا، بچوں کے سر سے باپ کا سایہ ہمیشہ کے لیے اٹھ گیا۔ کئی گھروں کے چراغ بجھ گئے۔ فسادیوں نے گھروں میں آگ لگا دی، لوگوں کو زندہ جلا دیا، عورتوں کو تلوار وںسے کاٹا گیا، معصوم بچوں کو بھی آگ کے حوالہ کر دیا گیا۔عالم یہ تھا کہ لوگوں کو دفنانے کے لیے جگہ کم پڑ گئی۔ یہاں کے قبرستان کی ایک ایک قبر میں تین تین لوگوں کو دفنایا گیا۔یہاں مرنے والے زیادہ ماتم کرنے والے کم تھے، جو زندہ تھے، وہ بھی زندہ لاش بن کر رہ گئے۔ برسوں تک کانوں میں اپنوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں گونجتی رہیں۔ انسانوں سے آباد ایک پوری بستی شمشان میں تبدیل ہو چکی تھی، جہاں صرف آگزنی اور تباہی کا ہی منظر تھا۔

ملیانہ کے محمد یونس اپنے بھائی محمود کا کھنڈر ہو چکا مکان دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کبھی یہاں ایک خوشحال خاندا ن رہتا تھا، گھر میں بچوں کی کلکاریاں گونجتی تھیں، لیکن آج یہ پوری طرح ویران ہے۔23مئی کو فسادیوں نے اس گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اس آگ میں ان کے بھائی محمود، بھابھی نسیم اور چار بچے عارف، وارث، آفتاب اور مسکان جل کر مر گئے۔جب مکان سے لاشیں نکالی گئیں تو ان کے بھائی اور بھابھی نے اپنے بچوں کو سینہ سے لگایا ہوا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر ان کی روح تک کانپ اٹھی۔بعد میں ان لاشوں کو ایسے ہی دفنا دیا گیا۔ اس حادثہ میں ان کی بھتیجی تبسم بچ گئی ، جو اس وقت اپنی نانی کے گھر گئی ہوئی تھی۔

بیٹے دلشاد کا نام آتے ہی علی حسن کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت دلشاد کی عمر آٹھ سال تھی۔ فسادیوں نے پہلے تو پیر پکڑ کر اسے زمین پر پٹخ پٹخ کر مارا ، پھر اس کے بعد جلتے ہوئے رکشہ پر پھینک دیا۔ وہ زندہ جل کر مر گیا۔ فسادیوں نے اس کے گھر کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے بجھا دیا۔ معراج نے بتایا کہ فسادیوں نے ان کے والد محمد اشرف کی گردن میں گولی ماری اور انھوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔یہیں کے یامین بتاتے ہیں کہ فسادیوں نے ان کے والد محمد اکبر کو پہلے تو بری طرح پیٹا اور پھر بعد میں انہیں زندہ جلادیا تھا۔
محمودن بتاتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے گھر میں آ گ لگا دی تھی، جس میں ان کے سسر عبد الرشید اور ساس عیدیہ کی جل کر موت ہو گئی تھی۔ آگ اتنی ہولناک تھی کہ ان کے ساس سسر کی لاشیں تک نہیں مل پائیں۔ ان کے شوہر نواب اپنے بھائی صابر، مظفر کے ساتھ کسی دوسرے گھر میں گئے ہوئے تھے۔ وہ اپنی نندوں شبانہ اور بانو اور بچوں رئیس الدین ، رئیسہ اور شہاب الدین کو لے کر پہلے ہی گھر سے نکل کر وہاں آ چکی تھیں، جہاں گائوں کے لوگ جمع تھے۔یہاں انھوں نے کئی دنوںتک فاقے کیے۔ اس حادثہ کے بعد وہ مع کنبہ اپنے مائکہ شید پور چلی گئیں۔ کچھ وقت بعدان کے شوہر ملیانہ آئے اور ایک عدد چھت کا بندوبست کیا۔

رضیہ بتاتی ہیں کہ اس وقت ان کی شادی ہوئی تھی۔ گھر میں اچھی خاصی رونق تھی، لیکن فسادیوں نے اس خوشی کو ماتم میں بدل دیا۔ فسادیوں نے پہلے تو گھر میں لوٹ مار کی، پھر آگ لگا دی۔ ان کے سسر اللہ راضی کو بری طرح پیٹا گیا۔ شکیلہ روتے ہوئے کہتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے شوہر اشرف کو گولی مار کر ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے تباہ کر ڈالی۔ اگر فسادیوں نے انہیں بھی مار دیا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ جنت بتاتی ہیں کہ فسادیوں نے ان کے گھر میں بھی آگ لگا دی تھی، کسی طرح انھوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ آٹھ دنوں کے بعد جب ان کا پریوار گھر لوٹا تو دیکھا کہ راکھ اب بھی گرم تھی۔فسادیوں کے قہر کی انتہا تو تب ہو گئی جب فسادیوں نے حاملہ کنیز کو تلوار سے کاٹ ڈالا ۔ اسی طرح شہانہ کے پیٹ کو بھی تلوار سے کاٹ دیا۔ اس کی آنتیں باہر آ گئیں اور وہ اپنی آنتوں کو ہاتھ میں لے کر بدحواس دوڑ پڑی۔اس حادثہ کے بعد اس نے گائوں ہی چھوڑ دیا۔بھورا کی بھانجی کے پیر میںگولی ماری گئی۔

بجلی کے سامان کی مرمت کرنے والے حشمت علی اپنے زخم دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پی اے سی کے جوانوں نے ان کے گھر کی تلاشی لی تھی اور اس میںانہیں پیچ کس ملا ۔ اس پر انہیں بے رحمی سے پیٹا گیا۔ ان کی ٹانگ توڑ دی گئی۔ وکیل احمد کے جسم پر بھی گولیوں کے نشان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پیٹ پر دو گولیاں ماری گئیں، جس سے ان کی ایک کڈنی خراب ہو گئی۔ محمد رضا بتاتے ہیں کہ پی اے سی کے جوانوں نے ایک گولی سے دو لوگوں کا قتل کیا۔نصیر احمد کے سر میں گولی ماری گئی ، جو ان کے پیچھے کھڑے ایک دوسرے آدمی کی گردن میں لگ  گئی اور دونوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔نوشاد بتاتے ہیں کہ اس وقت وہ چھوٹے تھے۔ فسادیوں کا قہر دیکھ کر ان کا دل دہل اٹھا تھا۔ وہ دہشت آج بھی ان کے دل پر طاری ہے۔ آج بھی جب ان فسادات کا ذکر آتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کل کا ہی واقعہ ہو۔

ہاشم پور ہ کی نسیم بانو کا کہنا ہے کہ ان کا ایک ہی بھائی تھا سراج احمد۔پی اے سی کے جوان اسے بھی اٹھا کر لے گئے اور گنگا نہر کے کنارے اسے گولی مار کر ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔ گھر کے چشم و چراغ کی موت کے بعد ان کے والد شبیر احمد بری طرح ٹوٹ گئے اور اس کی والدہ کی دماغی حالت خراب ہو گئی۔ اس دلسوز حادثہ کے 10سال بعد ان کی موت ہو گئی، لیکن آخری سانس تک انھوں نے اپنے بیٹے کا انتظار کیا۔ انہیں اس بات پر کبھی یقین ہی نہیں آیا کہ اب ان کا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہے۔ا ن کی دو بہنیں اپنی سسرال میں ہیں، جب کہ وہ اور ان کی ایک بہن فاطمہ طلاق شدہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بھائی کی موت نے پورے خاندان کو منتشر کر کے رکھ دیا۔ آج ان کا بھائی زندہ ہوتا تو ان کی زندگی ہی کچھ اور ہوتی۔ ہاجرہ کے بیٹے نعیم اور پیرو کے بیٹے نظام الدین کو بھی پی اے سی کے جوان اٹھا کر لے گئے تھے اور انہیں بھی گولی مار کر نہر میں پھینک دیا تھا۔زرینہ تو آج بھی اس خوفناک منظر کو یاد کرکے کانپ اٹھتی ہیں، جب پی اے سی اہلکار ان کے شوہر ظہیر احمد اور بیٹے جاوید اختر کو گھر سے گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے، بعد میں دونوں کی موت کی خبر ہی ملی۔ امینہ کے شوہر زین الدین اور دو بیٹوں جمشید احمد اور شمشاد احمد کو بھی پی اے سی کے جوان جبراً گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے۔ ان کے بیٹوں کو گولی مار کر نہر کے حوالہ کر دیا گیا اور شوہر کو جیل بھیج دیا گیا۔ سوا مہینہ بعد زین الدین گھر لوٹے تو ان کے زخم پولس کی حیوانیت کو بیان کر رہے تھے۔ان پر اس قدر ظلم کیے گئے کہ ان کے ہاتھ پیر ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گئے۔ اب وہ معذوروں کی زندگی جی رہے ہیں۔ امینہ بھی بیٹوں کے غم میں اس قدر غمزدہ ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر چل تک نہیں پاتیں۔ رفیقن بتاتی ہیں کہ پی اے سی نے ان کے شوہر حطیم الدین کو بری طرح پیٹا اور بیٹے علاء الدین کو نہر کنارے لے جا کر گولی مار دی اور اس کی لاش بھی ندی میں پھینک دی۔

عورتیں ہی نہیں، بزرگ بھی اپنی اولادوں کو یاد کر کے خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ جمال الدین کے بیٹے قمر الدین کو بھی دو گولیاں ماری گئیں۔پہلے وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر قینچیوں کا کارخانہ چلاتے تھے۔ ان کا بیٹا ہی نہیں، بلکہ کاروبار بھی فساد کی نذر ہو گئے۔ اب وہ ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان کے سہارے دو وقت کی روٹی جٹا پا رہے ہیں۔ شاہد انصاری کے والد الٰہی انصاری بھی میرٹھ فسادات میں مارے گئے اور وہ یتیم ہو گئے۔ موت کے منھ سے بچ کر آئے ذوالفقار بتاتے ہیں کہ پی اے سی نے انہیں بھی گولی مار کر نہر میں پھینک دیا تھا، لیکن وہ کسی طرح بچ کر آ گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پی اے سی کے چنگل سے  بچے لوگوں کے ہاتھ پیڑ توڑ دیے گئے۔وہ کھانے کمانے کے لائق نہیں رہے۔ محمد یامین بتاتے ہیں کہ ان سے پی اے سی  کے اہلکاروں نے پوچھا کہ کہاں رہتے ہو تو علاقہ کا نام بتاتے ہی انہیں لے جا کر جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔عبد الحمید کا سر بھی پھوڑ دیا گیا۔ان کے زخموں کے نشان آج بھی ان کے درد کو بیاں کر رہے ہیں۔ شکیل کا کہنا ہے کہ جب پی اے سی کے جوان اس کے بھائی نعیم کو اٹھا کر لے جا رہے تھے، تب وہ ان کے پیروں سے لپٹ گیا، لیکن ایک معصوم بچے کے آنسو بھی انہیں روک نہیں پائے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس حادثہ کے بعد علاقہ میں صرف عورتیں اور بچے ہی بچے تھے۔ کئی کئی دنوں تک انہیں روٹی کا ایک نوالہ تک نصیب نہیں ہوتا تھا۔ بچے اسی آس میں دن بھر سڑک کے چکر لگاتے تھے کہ کہیں سے کوئی گاڑی آئے اور انہیں راشن دے دے۔ انتظامیہ کی امداد بھی برائے نام تھی۔ کبھی کبھار ہی سرکاری نمائندے آتے اور انہیں دال چاول اور آٹا دے جاتے تھے۔ اس کے سہارے بھلا کتنے دن پیٹ بھر پاتا۔

0 Comments:

Post a Comment