Sunday, July 28, 2013

خواتین ریزرویشن بل : مرد ممبران پارلیمنٹ کو اعتراض کیوں‎


فردوس خان
گزشتہ سال دہلی میں اجتماعی عصمت دری کے واقعہ کے بعد ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کی آواز پھر سے بلند ہونے لگی ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرد، عورت کو ہمیشہ دوسرے درجے اور حاشیے پر رکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے آج تک خواتین ریزرویشن بل پاس نہیں ہو پایا ہے۔ دراصل اس بل کی راہ میں مرد کی وہی ذہنیت حائل ہے، جو عورتوں کو صرف گھر کی چہار دیواری میں قید رکھنا چاہتی ہے۔ آخر کیوں ہے مردممبران پارلیمنٹ کو اعتراض؟ پڑھئے چوتھی دنیا کی یہ خصوصی رپورٹ۔

خواتین کو بااختیار بنانے کے تمام دعووں کے باوجود خواتین ریزرویشن بل گزشتہ ڈیڑھ سال سے بھی زیادہ مدت سے لوک سبھا میں زیر التوا ہے، کیونکہ زیادہ تر مرد ممبران پارلیمنٹ نہیں چاہتے کہ خواتین سیاست میں آئیں۔ انھیں ڈرہے کہ اگر ان کی سیٹ خاتون کے لئے ریزرو ہو گئی تواس صورت میں وہ الیکشن کہاں سے لڑیں گے۔ دراصل، کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ اپنا انتخابی حلقہ نہیں چھوڑنا چاہتا۔ حالانکہ خواتین ریزرویشن بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتیں دلت، پسماندہ اور اقلیتوں کے نام پر اپنا مفاد ثابت کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لئے انھوں نے بہانہ بھی تلاش کر لیا ہے۔ یہ جگ ظاہر ہے کہ دلتوں ، پسماندوں، اقلیتوں اور غریب خواتین کے حق کی بات کرنے والی سیاسی جماعتیں الیکشن کے دوران ٹکٹ کے بٹوارے میں پیسہ ، اثرو رسوخ اور اقرباپروری کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔ وہ جن عورتوں کو اپنی ا میدوار بناتی ہیں، ان میں سے زیادہ ترعورتیں سیاسی پریواروں سے ہی ہوتی ہیں۔ ایسے میں دلت، پسماندہ، اقلیت اور غریب خواتین حاشیے پر چلی جاتی ہیں۔ کچھ پارٹیوں کو یہ بھی فکر ہوتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جیتنے والی خاتون امیدوار کہاں سے لائیں گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امیدوار نہ ملنے پر سیاستداں اپنے خاندان اور رشتے داروں کی خواتین کو ہی انتخابی میدان میں اتارتے ہیں۔

لوک سبھا میں حزب اختلاف کی لیڈر سشما سوراج خواتین ریزرویشن بل کو لے کر فکر مند دکھائی دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانا آج وقت کی مانگ ہے، اس لئے خواتین ریزرویشن بل منظور ہونا چاہئے۔ وہ کہتی ہیں کہ بی جے پی ہمیشہ اس بل کی حمایت میں رہی ہے اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی این ڈی اے سرکارکے دوران پارٹی نے اسے منظور کرانے کی پوری طرح کوشش کی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت دیگر پارٹیوں سے حمایت حاصل نہیں ہو پائی۔

دراصل ملک کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کو ریزرویشن دینے والے بل کو لیکر سیاسی جماعتیں آمنے سامنے ہیں۔ جہاں ایک طرف برسر اقتدار کانگریس سمیت بی جے پی اور بائیں بازو کی جماعتیںبل کی حمایت کر رہی ہیں، وہیں راشٹریہ جنتادل، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور لوک جن شکتی پارٹی نے اس بل کی موجودہ شکل کی اس لئے مخالفت کی ہے کیونکہ وہ سماج کے پسماندہ طبقوں کے لئے ریزرویشن میں ریزرویشن چاہتی ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس بل کوراجیہ سبھا کی منظوری ملنے کے باوجود کارروائی آگے نہیں بڑھ پائی ہے۔ یہ بل لوک سبھا میں زیر التوا ہے۔ حالانکہ ایک بار پھر بین الا قوامی یوم خواتین کے موقع پر راجیہ سبھا کے ممبران نے اتفاق رائے سے خواتین ریزرویشن بل کو پاس کرنے کی اپیل کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ خواتین ریزرویشن بل کئی بار پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ یہ بل سب سے پہلے ایچ ڈی دیوگوڑا کی وزارت عظمیٰ کی مدت کار میں 1996میں لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا۔ اس پر کافی ہنگامہ ہوا۔ پھر 1998میں جب اس وقت کے وزیر قانون تمبی درے بل پیش کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان کے ہاتھ سے بل کی کاپی لیکر پھاڑ دی گئی۔ اس کے بعد 6مئی 2008کو اسے راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا، جہاں اسے لیگل سسٹم اور پرسنل میٹر کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو سونپا گیا۔ سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کے باوجود پارلیمانی کمیٹی نے اسے اصل شکل میں ہی پاس کرانے کی سفارش کی۔ اس بل کے معاملے میں مرکزی سرکار کو 9 مارچ 2010کو اس وقت ایک بڑی کامیابی ملی، جب اس کے لئے لائے گئے108ویںآئین ترمیم بل کو راجیہ سبھا کی منظوری مل گئی۔

سیاست میں خواتین کو مناسب نمائندگی دلانے کے لئے خواتین ریزرویشن بل کا پاس ہونا بے حد ضروری ہے۔ خواتین ریزرویشن بل میں لوک سبھا اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں خواتین کے لئے 33فی صد سیٹیں ریزرو کرنے کا اہتمام ہے۔ خواتین ریزرویشن نافذ ہونے کے 15 سال بعد یہ ریزرویشن ختم ہو جائے گااور اسے آگے جاری رکھنے کے بارے میں جائزہ لیا جائے گا۔ دنیا کے تقریباً سو ممالک میں خواتین کوسیاست میںمناسب نمائندگی دینے کے لئے ریزرویشن کا قانون ہے۔ ریزرویشن کا فیصد سبھی ممالک میں الگ الگ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایشیائی ملکوں میں خواتین کو مناسب نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ ان ملکوں کا اوسط تناسب18.5فیصد ہے، جو کہ کافی کم ہے۔ اس معاملے میں سری لنکا کی حالت بیحد خراب ہے، وہاں یہ شرح محض 6فیصد ہے۔ مغربی ممالک کی خواتین سیاست میں بہت آگے ہیں۔ روانڈا کی پارلیمنٹ میں 56فیصدخواتین ہیں۔ یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد سویڈن کا نام آتا ہے، جہاں یہ شرح 47فیصد ہے۔ جنوبی افریقہ میں 45فیصد، آئس لینڈ میں43فیصد، ارجنٹنا میں 42فیصد، نیدر لینڈمیں41فیصد، ناروے اور سینیگل میں40فیصد، ڈنمارک میں38 فیصد، انگولا اور کوسٹاریکا میں37فیصدخواتین پارلیمنٹ میں ہیں۔ ہندوستان میں یہ شرح محض 11فیصد ہی ہے۔ حالانکہ 1995سے 2012کے درمیان سیاست میں خواتین کی تعداد 75فیصد بڑھی ہے، لیکن ہندوستان میں حالت اچھی نہیں ہے۔ 1991سے 2012کے درمیان خاتون نمائندوں کی تعداد 9.7فیصد سے 10.96فیصد ہی بڑھی ہے۔ 1957 میں لوک سبھا میں)22 48.9فیصد)خواتین جیت کر آئی تھیں۔ 1962میں47)31 فیصد)، 1967میں29(43.3فیصد)، 1971میں21 24.4) فیصد)، 1977میں19(27.1 فیصد)، 1980میں 28 (19.6فیصد )، 1984میں 42(25.2فیصد )، 1989میں 29(14.7فیصد )، 1991میں37(11.4فصد )، 1996میں 40(6.7فیصد)، 1998میں 43(15.7فیصد )، 1999میں 49(17.3فیصد)، 2004میں 45(12.7فیصد )اور 2009میں 49 (10.6فیصد ) خواتین لوک سبھا کی ممبر بنیں۔

خواتین ریزرویشن بل کی مخالفت کے لئے سیاستداں طرح طرح کی دلیلیں دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس بل سے غریب اور دیہات میں رہنے والی خواتین کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ جنتادل (یونائٹیڈ) کے صدر شرد یادو نے بل کے ضابطوں پر اعتراض جتاتے ہوئے کہا کہ اس بل سے صرف پَر کَٹی عورتوں کو فائدہ پہنچے گا، جبکہ سماجوادی پارٹی کے صدر ملائم سنگھ یادو کا کہنا ہے کہ اگر مرکز ی سرکار خواتین ریزرویشن بل میں ترمیم کرکے دلت، پسماندہ طبقہ اور مسلم سماج کی خواتین کے لئے ریزرویشن کی بات کرے، تو ان کی پارٹی اسے حمایت دینے پر غور کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سماجوادی پارٹی ، خواتین ریزرویشن کے خلاف نہیں ہے، لیکن یہ بل اگر موجودہ شکل میں پاس ہوتا ہے، تو ٖغریب اور دیہاتی خواتین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لئے ان کی پارٹی یہ چاہتی ہے کہ خواتین ریزرویشن بل میں دلت، پسماند ہ طبقے اور مسلم سماج کی خواتین کے لئے ریزرویشن کا انتظام کیا جائے۔ اسی طرح راشٹریہ جنتادل کے صدر لالو یادو کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی ریزرویشن کے خلاف نہیں ہے، لیکن وہ چاہتے ہیںکہ اس بل میں پچھڑی، دلت اور مسلم خواتین کو ریزرویشن ملے۔ سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی بھی اپنے شوہر کی طرز پر خواتین ریزرویشن کے کوٹے کے اندر کوٹے کا مطالبہ کر تی ہیں، یعنی وہ درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور پسماندہ طبقے کی خواتین کو بھی ریزرویشن میں شامل کرنے کی بات کہتی ہیں۔ ان پارٹیوں کی مخالفت کی حالت یہ ہے کہ مارچ 2010میں جب بھاری ہنگامے اور شور شرابے کے درمیان سرکار کی طرف سے اس وقت کے وزیر قانون ویرپا موئلی نے جیسے ہی ایوان میںخواتین ریزرویشن بل رکھا، تبھی بل کی مخالفت کر رہے جنتادل(آر جے ڈی ) اور سماجوادی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ چیئر مین حامد انصاری کی نشست تک پہنچ گئے۔ آر جے ڈی کے ممبر پارلیمنٹ سبھاش یادو، راجنیتی سنگھ اور سماجوادی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ کمال اختر نے حامد انصاری سے چھینا جھپٹی کرتے ہوئے، بل کی کاپیاں چھین لیں اور انھیں پھاڑکر ایوان میں لہرادیا۔ یہ مخالفت یہیں تک ہی محدود نہیںرہی، بلکہ ملائم سنگھ یادو اور لا لو پرساد یادو نے یو پی اے سرکار سے حمایت واپس لینے کا اعلان تک کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس بل کے پاس نہ ہونے کے پس پردہ مردکی مردانہ ذہنیت کام کر رہی ہے، کیونکہ جب سے انسان نے روئے زمین پر قدم رکھا ہے، تبھی سے انسانی سماج دو گروپوں میں منقسم رہا ہے۔ پہلا گروپ مردوں کا ہے اور دوسرا عورتوں کا۔ چونکہ عورتیں جسمانی طور پر مردوں کے مقابلے کمزور ہوتی ہیں، اس لئے مردسماج نے عورت کو دوسرے درجے پر رکھا۔ عورتوں کے ساتھ شروع سے ہی امتیاز برتا جاتارہا ہے۔چاہے معاملہ مذہب کا ہو، سیاست کا ہو یا پھر کسی اور شعبے کا، ہر جگہ عورت کو کمتر تصور کیا گیا۔ ملک کی جنگ ِ آزادی کے دوران بابائے قوم مہاتما گاندھی نے خواتین کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ گھر کی چہار دیواری سے باہر آکر انگریزوں سے لوہا لیں۔ انھوں نے عورتوں کو جھانسی کی رانی کی مثال دی، جنھوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی اور میدانِ جنگ میں فرنگیوں کو بتادیاکہ ہندوستان کی عورتیں صرف چوڑیاں ہی نہیں پہنتی ہیں، بلکہ وقت آنے پر تلوار بھی اٹھا لیتی ہیں۔ نتیجہ کے طور پر عورتوں نے ملک کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آزادی کے بعد عورتیںسیاست میں بھی آئیں، لیکن ان کی تعداد محض برائے نام رہی۔ عورتوں کو سیاست میں مناسب مقام دینے کے لئے ریزرویشن کا مطالبہ کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں 1993میں 73ویں 74ویں آئینی ترمیم کی گئی۔ اس کے تحت میونسپل کارپوریشن اور پنچایتوں کو آئینی درجہ دینے کے ساتھ ہی ان میں عورتوں کے لئے 33فیصد ریزرویشن دینے کاجواز ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ آئین میں لوک سبھا اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے لئے، ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق ریزرویشن کا بندوبست ہے، لیکن ان میں عورتوں کے لئے مقام محفوظ کرنے کا کوئی قانون نہیں ہے اور اسی سبب اس سہولت کا فائدہ صرف مرد ہی اٹھا رہے ہیں۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایا وتی خود عورت ہوتے ہوئے بھی اس بل کی مخالفت کر رہی ہیں۔ حالانکہ انھوں نے مجوزہ بل میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی عورتوں کی ہر شعبے میں بھر پور حصہ داری کے لئے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے مجوزہ 33فیصد ریزرویشن میں سے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی عورتوں کے لئے الگ سے ریزرویشن کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس بابت انھوں نے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ایک خط بھی لکھا ہے کہ ملک میں سبھی طبقوں کی عورتیں خاص طور سے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی عورتیں مالی ، سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پچھڑی ہوئی ہیں اور یہ عورتیں میدانِ سیاست میں تو اور بھی پچھڑی ہوئی ہیں۔ سیاست میں عورتوں کو نمائندگی دلانے کا مطالبہ پچھلے کافی عرصے سے ہو رہا ہے۔ 1974میں عورتوں کی صورتحال کے لئے تشکیل کی گئی ایک کمیٹی نے سیاسی اداروں میں ان کے لئے جگہ محفوظ کرنے کی سفارش کی تھی۔ اسی طرح 1988میں نیشنل پرسپیکٹو پلان میں پنچایتوں، شہری اداروں اور سیاسی جماعتوں میں عورتوں کے لئے 30فیصد ریزرویشن کی سفارش کی گئی تھی۔ اس کے بعد 2001میں خواتین کو بااختیار بنانے کی قومی حکمت عملی کے تحت لوک سبھا اور اسمبلیوں میں عورتوں کو ریزرویشن دینے کی وکالت کی گئی۔

خواتین کے ریزرویشن کو لے کر سیاست بھی خوب جم کو ہوتی رہی ہے۔ یو پی اے نے پچھلے چناؤ میں خواتین کے ریزرویشن کو اپنے منشور میں شامل کرتے ہوئے عورتوں کے استحکام کے تئیں اپنے عزم کو دہرایا۔ یوپی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ خواتین ریزرویشن بل پاس ہو جاتا ہے تو سمجھئے راجیو گاندھی کا عورتوں کے سیاسی استحکام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو جائے گا۔ کانگریسی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر امبیکا سونی کہتی ہیں کہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوںمیں عورتوں کے لئے ریزرویشن بیحد ضروری ہے۔

دراصل اس خواتین ریزرویشن بل کی شروع سے ہی مخالفت کی گئی۔ حالانکہ برسر اقتدار کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ ہی دیگر علاقائی پارٹیاں جیسے تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) ، دروڑ مُنیتر کشگم(ڈی ایم کے) ، آل انڈیا دروڑ منیتر کشگم(اے آئی ڈی ایم کے)، اکالی دل اور نیشل کانفرنس اس کی حمایت کر رہی ہیں، لیکن کانگریس اور بی جے پی کے ممبروں میں اس مدعے پر عام رائے نہیں دکھائی دے رہی ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی کے اعلیٰ لیڈر یہ جانتے ہیں کہ ان کے بہت سے ممبران پارلیمنٹ خواتین ریزرویشن بل کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ راجیہ سبھا میں دونوں پارٹیوںکو وہپ جاری کرکے اپنے ممبران پارلیمنٹ کو ووٹ دینے کے لئے مجبور کرنا پڑا۔ واضح ہو کہ وہپ تبھی جاری کیا جاتا ہے، جب ممبران پارلیمنٹ یا ممبران اسمبلی کے پارٹی کے خلاف جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایک کمیونسٹ پارٹی ہی ایسی ہے، جس کی اس بل کو پوری طرح سے حمایت حاصل ہے، کیونکہ کمیونسٹ ممبران پارلیمنٹ ، پارٹی کی آئیڈیالوجی پرہی چلنے میں یقین رکھتے ہیں۔ مارکسوادی لیڈر ورندا کرات خواتین ریزرویشن بل کی حمایت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس کے پاس ہونے سے ملک کی جمہوریت اور مضبوط ہوگی۔

بہر حال جس طرح بڑی سیاسی جماعتیں بل کی موجودہ شکل کی مخالفت کر رہی ہیں، اس کے مدنظر لوک سبھا میں اس کا پاس ہونا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں دلتوں،پچھڑوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تئیں اتنی ہی سنجیدہ ہیں، تو انھیں اس بل کو پاس کرانا چاہئے۔ اس کے بعد وہ اپنی سطح پر ان طبقوں کو ٹکٹ دے کر سیاست میں آگے لاسکتے ہیں۔ مگر یہ جماعتیں ایسا نہیں کریں گی، کیونکہ ان کا اصل مقصد ان طبقوں کی فلاح و بہبود نہیں، بلکہ عورتوں کو آگے آنے سے روکنا ہے۔

0 Comments:

Post a Comment