Saturday, August 31, 2013

!وہ آزاد کے بعد بھی آزاد نہیں تھے‎


فردوس خان 
ہندوستان  کی کثیر آبادی کے درمیان ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے، جسے آزادی کے طویل عرصہ بعد بھی مجرموں کی طرح پولس تھانوں میں حاضری لگانی پڑتی تھی۔ آخر کار 31اگست، 1952کو اسے اس سے نجات تو مل گئی، لیکن اسے کوئی خاص توجہ حاصل نہیں ہوئی۔نتیجتاًاس کی حالت بدسے بدتر ہوتی چلی گئی۔ اس سماج کے لوگوں کو ملال اس بات کا ہے کہ جہاں ملک کی دیگر برادریوں نے ترقی کی، وہیں وہ مسلسل پسماندہ ہوتے چلے گئے۔ان کے پشتینی دھندے ختم ہوتے چلے گئے اور انہیں سرکاری سہولیات کا بھی مکمل فائدہ نہیں مل پایا۔ قابل غور ہے کہ ملک میں 15اگست بطور جشن آزادی منایا جاتا ہے، لیکن انہی خوشنما لمحوں کے درمیان سماج میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے، جو اس دن کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ گھومنتو برادری کے یہ لوگ 31اگست کو آزادی کا جشن مناتے ہیں۔

آل انڈیا ومکت جاتی مورچہ کے ممبر بھولا کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم یوم آزادی نہیں مناتے، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے لئے15اگست کے بجائے 31اگست کی زیادہ اہمیت ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 15لوگوں کو دن میں تین بار پولس تھانہ میں حاضری لگانی پڑتی تھی۔ اگر کوئی شخص بیمار ہونے یا کسی دوسری وجہ سے تھانہ میں موجود نہیں ہوپاتا تو پولس کے ذریعہ اسے اذیتیں دی جاتیں۔ اتنا ہی نہیں، چوری یا کوئی دیگر مجرمانہ واردات پر بھی پولس کا قہر ان پر ٹوٹتاتھا۔ یہ سلسلہ طویل عرصہ تک چلتا رہا۔ آخر کار عاجز آ کر تشدد کے شکار لوگوں نے اس انتظامی تسلط کے خلاف آواز بلند کی اور پھر شروع ہوا لوگوں میں بیداری لانے کا سلسلہ۔لوگوں کی جدوجہد رنگ لائی اور پھر سال 1952میں انگریزوں کے ذریعہ 1871میں بنائے گئے ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ اسی سال 31اگست کو گھومنتو برادری کے لوگوں کو تھانہ میں حاضری لگانے سے نجات ملی۔

اس وقت ملک میں ومکت برداری کے 192قبیلوں کے تقریباً20کروڑ لوگ ہیں۔ ہریانہ کی تقریباًساڑھے سات فیصد آبادی اسی برادری کی ہے۔ ان ومکت برداریوں میں سانسی، باوریا، بھاٹ، نٹ بھیڑ کٹ اور ککر وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بھاٹ برداری سے تعلق رکھنے والے پربھو بتاتے ہیں کہ 31اگست کے دن قبیلے کے رسم و رواج کے مطابق اجتماعی رقص کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خواتین جمع ہو کر پکوان بناتی ہیں اور اس کے بعد اجتماعی عشائیہ ہوتا ہے۔ بچے بھی اپنے اپنے طریقوں سے خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ کئی قبیلوں میں پتنگ بازی کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جیتنے والے لوگوں کو تقریب کی زینت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ انہیں مبارکباد کے ساتھ ساتھ انعام بھی دیتے ہیں۔ان برادریوں کے لوگوں کے اداروں میں31اگست کو یوم آزادی منایاجاتا ہے۔ ان پروگراموں میں مرکزی وزراء سے لے کر مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان اور سرکاری افسران بھی شرکت کرتے ہیں۔ ان کی تیاریوں کے لئے تنظیم کے عہدیداران گائوں گائوں کا دورہ کر کے لوگوں کو تقریب کے لئے مدعو کرتے ہیں۔

ہریانہ کے علاوہ ملک کی د یگر ریاستوں میں بھی قبائلی سماج کی دیگر برادریاں رہتی ہیں، جن میں آندھرا پردیش میں بھیلی، چینچو، گونڈ، کانڈا، لمباڈی، سنگلی اور نائک ۔ آسام میں بوشے، کچاری مکر یعنی کاربی، لنلگ، راتھا، دماسا، ہمر اور ہجونگ۔بہار اور جھارکھنڈ میں جھمور ،بنجارا، برہور، کوروا، منڈا، اورائو، سنتھال، گونڈ اور کھنڈیا۔ گجرات میں بھیل، ڈھوڈیا،گونڈ،سدی،بورڈیا اور بھیلالا۔ ہماچل پردیش میں گدی،لاہوآلا اور سوانگلا۔ کرناٹک میں بھیل،چینچو، گائوڈ ، کروبا، کمارا، کولی، کوتھا، میاکا اور ٹوڈا۔کیرل میں آدیم، کونڈکپو ،ملیس اور پلیار۔مدھیہ پردیش میں بھیل، برہور ، امر، گونڈ، کھریا،ماجھی، منڈا اور اورائوں۔ چھتیس گڑھ میں پرہی، بھیلالا،بھیلائت، پردھان، راجگونڈ، سہریا، کنور،بھینجوار ،بیگا، کول اور کورکو۔ مہاراشٹر میں بھیل،بھونجیا،ڈھوڈیا،گونڈ، کھریا، نائک،اورائوں،پردھی اور پتھنا۔ میگھالیہ میں گارو، کھاسی اور جینتیا۔اڑیسہ میں جوانگ، کھانڈ ،کرووا،منڈاری، اورائوں، سنتھال،دھاروآ اور نائک، راجستھان میں بھیل، دمور، گرستہ،مینا اور سلریا۔ تمل ناڈو میں ارولر، کمرار ، کونڈکپو،کوٹا، مہملاسر، پلین اور ٹوڈا۔ تریپورہ میں چکما ،گارو، کھاسی، کوکی، لوسائی،لیانگ اور سنتھال۔ مغربی بنگال میں اسور، برہور، کوروا، لیپچا، منڈا، سنتھال اور گونڈ۔ میزورم میںلوسئی،ککی، گارو، کھاسی، جینتیا اور مکٹ۔ گوا میں ٹوڈی اور نائک۔دمن و دیپ میں ڈھوڈی، مکڑ اور ورتی۔ انڈمان میں جاروا، نکوبارمیں،اونجے،سینٹی نیلج،شومپینس اور گریٹ انڈمانی۔ اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں بھاٹی، بکسا، جونساری اور تھارو۔ ناگالینڈ میں ناگا، ککی، مکٹ اور گارو۔ سکم میں بھوٹیا اور لیپچا۔ جموںو کشمیر میں چدمپا، گرا، گور اور گڈی وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے دیگر برادریاں اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔
انڈین نیشنل لوک دل کے ٹپری واس ومکت جاتی مورچہ کے ضلع صدر بہادر سنگھ کا کہنا ہے کہ آزادی کی 6دہائیوںکے بعد بھی قبائلی سماج کی گھومنتو برادریاں ترقی سے کوسوں دور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان برادریوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ انہیں مقامی طور پر آباد کریں۔ ان کے لئے بستیاں بنائی جائیں اور مکان مہیا کرائے جائیں، بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور ایس ٹی کا درجہ دیا جائے، تاکہ انہیں بھی ریزرویشن کا فائدہ مل سکے۔ قبائلی سماج کی بیشتر برادریاں آج بھی بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وزارت دیہی ترقیات کے ایک سروے کے مطابق ان برادریوں کا نصف سے زیادہ حصہ خط افلاس سے نیچے پایا گیا ہے۔ ان کی فی کس آمدنی ملک میں سب سے نیچے رہتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق،درج فہرست قبائل کی 9,17,590 ایکڑ زمین کا تبادلہ کیا گیا اور محض5,37,610ایکڑ زمین ہی انہیں واپس دلائی گئی۔

گھومنتو برادری کی بدحالی کے مختلف اسباب ہیں، جن میں جنگلوںکی تباہ کاری اہم طور پر شامل ہے۔ جنگل ان کی گزر بسر کا واحد وسیلہ ہے، لیکن ختم ہو رہے جنگلاتی وسائل ان کے ایک بڑے حصے کے وجود کو پریشانی میں ڈال رہے ہیں۔ بیداری کا فقدان بھی ان برادریوں کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہواہے۔مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ شروع کئے گئے ترقی سے متعلق مختلف پروگراموں، اسکیموں کے بارے میں گھومنتو برادری کے لوگوں کو جانکاری نہیں ہے، جس سے انہیں ان کا کوئی بھی فائدہ نہیں مل پاتا۔ پانچویں پنج سالہ اسکیم کے تحت ملک بھر میں درج فہرست قبائلیوں کی ترقی کے لئے ٹرائبل سب اسٹریٹجی (ٹی ایس پی) اسکیم بھی تیار کی گئی ہے۔اس کے تحت عموماً درج فہرست قبائلیوں سے بسے مکمل علاقہ کو ان کی آبادی کے حساب سے کئی زمروں میں شامل کیا گیا ہے۔ان زمروںمیں اٹرگریٹیڈ ایریا ڈیولپمنٹ پروجیکٹ (ٹی ڈی پی)،موڈیفائڈ ایریاڈیولپمنٹ ایپروچ (ماڈا)، کلسٹر اور آدم درج فہرست قبائل گروپ شامل ہیں۔ قبائلیوں کی وزارت کے دفتر نے درج فہرست قبائل کی فلاح اور ترقی کے لیے بنائی گئی اسکیموں پر عمل درآمد جاری رکھا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ لاعلمی،بدعنوانی اور لال فیتا شاہی کے سبب مذکورہ برادریاں اسکیموں سے مستفید نہیں ہو پاتی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بیداری مہم چلا کر ان برادریوں کی ترقی کے لئے کارگر اقدامات کیے جائیں، ورنہ حکومت کی فلاحی اسکیمیں کاغذوں پر ہی سمٹ کر رہ جائیں گی۔

0 Comments:

Post a Comment