Monday, May 18, 2015

تعلیم کی طرف گامزن مسلم خواتین‎


فردو س خان
تعلیم مہذب سماج کی بنیاد ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تعلیم یافتہ قوموں نے ہمیشہ ترقی کی ہے۔ کسی بھی شخص کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں مختلف فرقے تعلیم کو اہمیت دے رہے ہیںوہیں مسلم سماج آج بھی اس معاملے میں بے حد پسماندہ ہے۔ہندوستان میں خاص کر خواتین کی حالت بے حد خراب ہے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے اعداد و شمار بھی اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ دیگر فرقوں کے مقابلے مسلم خواتین اقتصادی، سماجی اور تعلیمی طور پر کافی پچھڑی ہوئی ہیں، لیکن خاص بات یہ ہے کہ تمام مشکلوں کے باوجود مسلم خواتین مختلف میدانوں میں کامیابی درج کر رہی ہیں۔

سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میںمسلم خواتین کی خواندگی شرح53.7فیصد ہے۔ان میں سے بیشتر خواتین صرف حرف شناشی تک ہی محدود ہیں۔7سے 16برس کی عمر کی اسکول جانے والی لڑکیوں کی شرح صرف 3.11فیصد ہے۔شہری علاقوں میں 4.3فیصد اور دیہی علاقوں میں2.26فیصد لڑکیاں ہی اسکول جاتی ہیں۔
سال2001میں شہری علاقوں میں70.9فیصد لڑکیاں ابتدائی سطح تک ہی تعلیم حاصل کر پائیں، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح47.8فیصد ہے۔سال1948میں یہ شرح بالترتیب 13.9اور4.0فیصد تھی۔سال2001میںآٹھویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنے والی شہری علاقوں کی لڑکیوں کی شرح 51.1فیصد اور دیہی علاقوں میں 29.4فیصد ہے۔سال1948میں شہری علاقوں میں5.2فیصد اور دیہی علاقوں میں 0.9فیصد لڑکیاں ہی مڈل سطح تک تعلیم حاصل کر پائی تھیں۔ سال2001میں میٹرک سطح تک تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی شرح شہری علاقوں میں32.2فیصد اور دیہی علاقوں میں 11.2فیصد ہے۔سال1948میں یہ شرح بالترتیب 3.2اور 0.4 فیصد تھی۔

تعلیم کی ہی طرح خود مختاری کے معاملے میںبھی مسلم خواتین کی حالت تشویشناک ہے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق 15سے64سال کی ہندو خواتین(46.1) فیصد کے مقابلے صرف25.2فیصد خواتین ہی بر سر روزگار ہیں۔ بیشتر مسلم خواتین کو پیسوں کے لیے اپنے کنبے کے لوگوں پر ہی منحصر رہنا پڑتا ہے، جس کے سبب وہ اپنی مرضی سے اپنے اوپر ایک بھی پیسہ خرچ نہیں کر پاتیں۔یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ مسلم خواتین کی بدحالی کے لیے ’’مذہبی وجوہات‘‘ کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔ان میں برقعہ کا چلن، کئی بیویوں کا رواج اور طلاق کے معاملے اہم طور پر شامل ہیں۔ لڑکوں کی تعلیم کے بارے میں مسلم والدین کی دلیل ہوتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے سے کون سی انہیں سرکاری نوکری مل جائے گی۔پھر پڑھائی پر کیوں پیسہ برباد کیا جائے؟بچوں کو کسی کام میں ڈال دو، سیکھ لیں گے تو زندگی میں کما کھا لیں گے۔وہیں لڑکیوں کے معاملے میں والدین کہتے ہیںکہ سسرال میں جاکر چولہا چوکا ہی تو سنبھالنا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ لڑکیاں سلائی کڑھائی اور گھر کا کام کاج سیکھ لیں۔سسرال میں جاکریہ تو سننا نہیں پڑے گا کہ ماں نے کچھ سکھایا نہیں۔

مرادآباد کی رہنے والی50سال کی کامنی صدیقی بتاتی ہیں کہ وہ پڑھنا چاہتی تھیں، لیکن گھر والوں نے ان کی پڑھائی درمیان میں ہی روک دی۔وہ پانچویں کلاس میں پڑھتی تھیں، تبھی ان کو پردے میں رہنے کے لیے کہہ دیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ صرف گھر کے کام کاج سیکھ لیں۔ سسرال میں یہی سب کام آئے گا۔پڑھ لکھ کر کون سی نوکری کرنی ہے۔انہیں اس بات کا ملال ہے کہ پڑھ نہیں پائیں، لیکن وہ اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتی ہیں۔ان کی چار بیٹیاں ہیں اور چاروں پڑھ رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ وہ سب نہیں ہونے دیں گی جو ان کے ساتھ ہوا۔ شبانہ اور نشاط نے پچھلے سال ہی دسویں کا امتحان پاس کیا ہے، وہ بتاتی ہیں کہ غریبی کی وجہ سے ان کے والدین انہیں تعلیم دلانے میںنا اہل تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنی ماں کے ساتھ بیڑیاں بنا کر اپنی پڑھائی کے لیے پیسے اکٹھا کیے۔ان کا کہنا ہے کہ سبھی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہئے، کیونکہ تعلیم زندگی کو بہتر بناتی ہے۔ اب وہ بیوٹیشین کا کورس کرکے اپنا بیوٹی پارلر کھولنا چاہتی ہیں۔ راج مستری کا کام کرنے والے علی محمد نے اپنی چاروں بیٹیوں کو تعلیم دی ہے، ان کی دو بیٹیاں دسویں پاس ہیں اور دو نے بی اے تک پڑھائی کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ والدین اپنی بیٹیوں کے لیے جہیز اکٹھا کرتے ہیں، لیکن ہم نے ایسا نہ کرکے ان کی تعلیم پر پیسہ خرچ کیا۔تعلیم ہی میری بیٹیوں کا زیور ہے، جو ساری عمر ان کے کام آئے گا۔چاروں بہنیں گھر پر زردوزی کا کام بھی کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ پہلے بچولئے سے کام لیا کرتی تھیں مگر اب وہ دوکانداروں سے براہ راست رابطہ کرتی ہیںجس سے انہیں پہلے سے زیادہ منافع ہوتا ہے، کیونکہ بچولیا انہیں بہت کم پیسہ دیتا تھا۔
حالانکہ اسلام میں تعلیم کو بہت اہم مانا گیا ہے۔اس کے باوجود مسلم سماج کے رہنمائوں نے تعلیم پر کوئی خاص زور نہیں دیا، جس کے سبب مسلم سماج پچھڑتا چلا گیا۔مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے بھی ایک فتویٰ جاری کرکے کہا ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے لازمی ہے۔چاہے وہ مرد ہو یا خاتون۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیں، کیونکہ ایک تعلیم یافتہ خاتون پورے کنبے کو مہذب بنا سکتی ہے۔اولاد کی بہتر پرورش کے لیے ماں کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ نا خواندگی ہے۔ایک حدیث میں بھی کہا گیا ہے کہ ایک مرد نے پڑھا تو سمجھو ایک فرد نے پڑھا اور اگر ایک خاتون نے پڑھا تو سمجھو ایک پریوار ، ایک خاندان نے پڑھا۔فتوے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اولاد تو اولاد نوکرانیوں کو بھی پڑھانے پر زور دیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم لڑکیوں کو دانستہ طور پر تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، جس سے وہ اپنے حقوق کے تئیں بیدار نہ ہو سکیں۔حضرت محمدﷺ کے دور میں خواتین مساجد میں جاکر نماز ادا کیا کرتی تھیں۔ بے شمار جنگوں میںخواتین نے اپنی جنگی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔جنگ احد میں جب حضرت محمدﷺ زخمی ہو گئے تو ان کی بیٹی فاطمہؓ نے ان کا علاج کیا۔اس دور میں بھی رفائدہ اور میمونہ نام کی مشہور خاتون معالج تھیں۔رفائدہ کا تو میدان نبوی میں اسپتال بھی تھا، جہاں سنگین حالت میں مریضوں کو  داخل کیا جاتا تھا۔ مسلم خواتین سرجری بھی کرتی تھیں۔ام زیاد، شاذیہ، بنت مائوز، معازت الاپگریا، عطیہ اسریا اورسلیم انصاریہ وغیرہ اس زمانے کی مقبول سرجن تھیں۔ میدان جنگ میں خواتین ڈاکٹر بھی مردوں کے جیسا ہی لباس پہنتی تھیں۔خاتون عالمہ رابعہ بصری کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔مرد عالموں کی طرح وہ بھی مذہبی اجلاس میں شرکت کیا کرتی تھیں۔سیاست میں بھی خواتین نے ناقابل فراموش کام کئے۔ رضیہ سلطان ہندوستان کی پہلی خاتون حکمراں بنیں۔ نور جہاں بھی اپنے وقت کی مقبول سیاست داں رہیں، جو حکومت کا بیشتر کام کاج دیکھتی تھیں۔1857کی جنگ آزادی میں کانپور کی ہر دلعزیز رقاصہ عزیزن بائی سارے عیش و آرام ٹھکرا کر ملک کو غلامی کی زنجیروں سے چھڑانے کے لیے جنگ آزادی میں کود پڑیں۔انھوں نے خواتین کے گروپ بنائے جو مردانہ لباس میں رہتی تھیں۔وہ سبھی گھوڑوں پر سوار ہو کر اور ہاتھ میں تلوار لیکر نوجوانوں کو جنگ آزادی میں حصہ لینے کے لیے راغب کرتی تھیں۔اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی بیوی بیگم حضرت محل نے ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے قابل ذکر کام کیے۔

موجودہ دور میں بھی مختلف میدانوں میں خواتین اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دے رہی ہیں۔ترکی جیسے جدید ترین ملک میں نہیںبلکہ انتہاپسند سمجھے جانے والے پاکستان اور بنگلہ دیش میں خواتین کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملا ہے۔واقعی یہ ایک خوشنما احساس ہے کہ مذہب کے ٹھیکیداروں کی تمام بندشوں کے باوجود مسلم خواتین آج سیاست کے ساتھ کھیل، تجارت، صنعت ، آرٹ، ادب، دفاع اور دیگر سماجی میدانوں میں بھی اہم رول ادا کر رہی ہیں۔جموں و کشمیر کے کلالی-ہلکاک علاقے کی منیرابیگم نے دہشت گردوں کامقابلہ کرنے کے لیے بندوق اٹھا لی۔انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سورن کوٹ کے گائوں کی دیگر خواتین نے بھی ہتھیار اٹھا کر دہشت گردو ںسے اپنے اہل خانہ کی حفاظت کرنے کا عہد لیا۔جموں و کشمیر کے راجوری ضلع کے کالسی گائوں کی رخسانہ کوثر نے دہشت گردو ںکو مار کر یہ پیغام دیا کہ ملک میں بہادر خواتین کی کوئی کمی نہیں ہے۔مغربی بنگال کے نندی گرام کی شبانہ آرا نے تمام رکاوٹوں کو پار کرکے قاضی کا عہدہ سنبھالا۔کیرل کے ناویکلم کی شازینہ نے کیرل یونیورسٹی سے سنسکرت میںایم اے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔مغربی بنگال کی پپیا سلطانہ وہاں کی پہلی خاتون ریاستی پولس افسر بنیں۔ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرکے پپیا نے ریاستی پولس سروس کے امتحان کی تیاری شروع کر دی۔انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب اپنی ماں سلمیٰ سے ملی ، جو مدرسے میں استانی ہیں۔پپیا کا ماننا ہے کہ ان کے والدین روشن خیال ہیں اور انہی کے تعائون سے آج وہ اس مقام تک پہنچ پائی ہیں۔
یہ ایک خوشنما احساس ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میںاسکولوں میں داخلہ لینے والے مسلم بچوں خاص کر لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔نیشنل یونیورسٹی آف پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ابتدائی سطح یعنی پانچویں تک کے درجات میں 1.438کروڑمسلم بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔یہ تعداد ابتدائی سطح کے درجات میں داخلہ لینے والے کل13.438کروڑ بچوں کا11.03فیصد ہے۔ سال 2007-08میں یہ شرح 10.49فیصد تھی۔جبکہ2006-07میں یہ تعداد کل داخل بچوں کا9.39فیصد تھی۔ان درجات میں پڑھ رہے کل مسلم طلبا میں48.93فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔سینئر سیکنڈری اسکولوں میں بھی مسلم بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔یہ تعداد کل داخلے کی 9.13فیصد ہے۔قابل غور بات یہ بھی ہے کہ سینئر سکینڈری اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد مسلم طلبا کی تعداد کا50.03فیصد ہے، جبکہ سبھی فرقے کی لڑکیوں کا سینئر سکینڈری اسکولوںں میںکل داخلہ محض47.58فیصد ہے۔یہ رپورٹ ملک کی35ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے633اضلاع کے 12.9 لاکھ تسلیم شدہ اسکولوں سے اکٹھا کی گئی جانکاری پر مبنی ہے۔یہ اعداد و شمار مسلم سماج میں تبدیلی کی علامات ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے مسلم سماج میں بھی تعلیم کی قدر ہونے لگی ہے، اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والا وقت مسلم خواتین کے لیے تعلیم کی روشنی سے جگمگاتی صبح لیکر آئے گا۔

0 Comments:

Post a Comment